حقوقِ نسواں

افغانستان میں تین بین الاقوامی این جی اوز کی جانب سے جزوی طور پر دوبارہ کام کا آغاز

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

17 جنوری کو کابل کے ایک جمنازیم میں افغان عوام ایک این جی او کی جانب سے تقسیم کردہ غذائی امداد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کم از کم تین ممتاز بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے حکام کی طرف سے اس یقین دہانی کے بعد کہ افغان خواتین صحت کے شعبے کام جاری رکھ سکتی ہیں، افغانستان میں زندگی بچانے کے کام کو جزوی طور پر دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

17 جنوری کو کابل کے ایک جمنازیم میں افغان عوام ایک این جی او کی جانب سے تقسیم کردہ غذائی امداد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کم از کم تین ممتاز بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے حکام کی طرف سے اس یقین دہانی کے بعد کہ افغان خواتین صحت کے شعبے کام جاری رکھ سکتی ہیں، افغانستان میں زندگی بچانے کے کام کو جزوی طور پر دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

کابل -- مقامی حکام کی جانب سے اس یقین دہانی کے بعد کہ افغان خواتین صحت کے شعبے میں کام جاری رکھ سکتی ہیں، کم از کم تین ممتاز بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے افغانستان میں جزوی طور پر زندگی بچانے کا کام دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

سینکڑوں این جی اوز نے دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک سے نمٹنے کی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے، افغانستان کے 38 ملین افراد میں سے نصف بھوک اور 30 لاکھ بچے غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

سرد موسمِ سرما کے مہینوں کی آمد کے ساتھ، امداد اور بھی زیادہ اہم ہو گئی ہے، خصوصاً اندرونِ ملک بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد (آئی ڈی پیز) کے لیے۔

کیئر، سیو دی چلڈرن اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) نے دسمبر کے آخر میں افغان خواتین پر امدادی کام کرنے پر پابندی لگانے کے حکومتی حکم پر احتجاج کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں معطل کر دی تھیں، جو کہ ملک میں خواتین کے حقوق چھیننے کا تازہ ترین عمل تھا۔.

29 نومبر 2021 کو کابل میں ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کی نقد تقسیم کی تقریب کے دوران خواتین قطار میں کھڑی ہیں۔

29 نومبر 2021 کو کابل میں ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کی نقد تقسیم کی تقریب کے دوران خواتین قطار میں کھڑی ہیں۔

"ہمیں متعلقہ حکام کی جانب سے واضح، قابلِ اعتماد یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں کہ ہمارا خواتین پر مشتمل عملہ محفوظ رہے گا اور وہ بغیر کسی رکاوٹ کے کام کر سکتی ہیں،" سیو دی چلڈرن نے ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے گزشتہ چند دنوں میں صحت کے شعبے میں دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔

"تاہم، اب بھی زبردست پابندی کے ساتھ، ہماری دیگر سرگرمیاں جہاں ہمارے پاس قابلِ اعتماد یقین دہانی نہیں ہے کہ ہماری خواتین ساتھی کام کر سکتی ہیں، رکی رہیں گی"۔

آئی آر سی اور کیئر نے بھی تصدیق کی کہ انہوں نے صحت کے شعبے میں خواتین پر مشتمل عملے کے ساتھ دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔

عالمی برادری اعلیٰ سطحی اجلاسوں کے سلسلے میں حکومت پر زور دے رہی ہے کہ وہ امدادی شعبے میں خواتین پر پابندی کے حکم کو واپس لے، جس کے ملک میں آنے والی امداد کے بہاؤ پر بہت بُرے نتائج کی توقع تھی۔

پابندی کا حکم دینے والی وزارتِ اقتصادیات کے ترجمان عبدالرحمن حبیب نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ "ہمارے معاشرے کی ضرورت" تھی کہ خواتین کو صحت کے شعبے میں کام کرنے کی اجازت دی جائے۔

"ہمیں ضرورت ہے کہ وہ غذائی قلت کے شکار بچوں اور دیگر خواتین کی مدد کریں جنہیں صحت کی خدمات کی ضرورت ہے۔ وہ (خواتین پر مشتمل عملہ) ہماری مذہبی اور ثقافتی اقدار کے مطابق کام کر رہی ہیں"۔

'نئے رہنماء خطوط'

دو امدادی اہلکاروں نے بتایا کہ خواتین کو تعلیم، پانی، صفائی اور خوراک کی تقسیم سمیت دیگر شعبوں میں کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے حکام کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

ایک غیر ملکی این جی او کے ایک امدادی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، "ہمیں امید ہے کہ جلد ہی نئے رہنماء خطوط سامنے آئیں گے"۔

ایک اور امدادی کارکن نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکام خواتین کے لیے دوسرے شعبے "منتخب طور پر کھول سکتے ہیں"۔

انہوں نے کہا، "ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ این جی اوز سے پوچھیں کہ ان کی تنظیموں اور کام کے شعبوں میں کون سے مخصوص محکموں کے لیے انہیں خواتین پر مشتمل عملے کی ضرورت ہے، اور اس کے مطابق اجازت دی جا سکتی ہے"۔

امدادی اہلکاروں نے کہا کہ تنظیموں نے پہلے ہی مرد اور خواتین اہلکاروں کو الگ کر دیا تھا اور خواتین حجاب پہنتی تھیں۔

خواتین کارکنان افغانستان میں زمینی امدادی کارروائیوں کے لیے بہت اہم ہیں، خصوصاً دیگر ضرورت مند خواتین کی شناخت کے لیے۔

کابل میں خوراک کی امداد لینے کے لیے قطار میں کھڑی آٹھ بچوں کی ماں پروین نے کہا، "موسمِ سرما کے آغاز سے ہی ہماری حالت ابتر ہے۔ ہم نے چار دنوں سے کچھ نہیں کھایا"۔

انہوں نے کہا کہ وہ مردوں کے بجائے خواتین اہلکاروں سے امداد وصول کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔

38 سالہ پروین نے کہا، "ایک خاتون کو، آپ سب کچھ بتا سکتی ہیں"۔

یہ پابندی گزشتہ ماہ یکے بعد دیگرے کیے گئے دو تباہ کن احکامات میں سے ایک تھی، جب حکام نے پہلی بار خواتین کو یونیورسٹی کی تعلیم سے روک دیا تھا۔

خواتین کو پارکوں، جم اور عوامی حماموں میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ انہیں کسی قریبی مرد رشتہ دار کے بغیر سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے اور ان کے لیے عوام میں جاتے وقت پردہ کرنا لازمی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500