سلامتی

امدادی سرگرمیوں پر طالبان کی سختیوں سے خواتین سے سلوک کے بارے میں خدشات

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

برقع پوش خواتین، 22 فروری کو قندھار صوبہ کے ضلع ارغنداب میں سڑک کے کنارے جا رہی ہیں۔ [جاوید تنویر/ اے ایف پی]

برقع پوش خواتین، 22 فروری کو قندھار صوبہ کے ضلع ارغنداب میں سڑک کے کنارے جا رہی ہیں۔ [جاوید تنویر/ اے ایف پی]

کابل -- ایک درجن سے زیادہ امدادی کارکنوں کے مطابق، ایسے علاقوں میں جہاں طالبان کا کنٹرول ہے، عسکریت پسندوں کی طرف سے بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن کے باعث، افغان خواتین کو انتہائی ضروری امداد سے محروم کر دیا گیا ہے۔

عسکریت پسندوں نے ایسے منصوبوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے جو خواتین کو زیادہ خودمختار بننے میں مدد کر رہے تھے اور کچھ علاقوں میں خواتین امدادی کارکنوں کو اپنے علاقوں میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔

طالبان کے خواتین کی طرف متشدد نظریہ کو سامنے رکھتے ہوئے، بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا سب سے زیادہ نقصان خواتین کو پہنچے گا۔

اگرچہ افغان حکومت نے ملک کے اندر خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کی کوششیں کی ہیں اور مواقع و ملازمتوں کی تخلیق سے ان کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے مگر خواتین کے بارے میں طالبان کے راسخ الاعتقادی خیالات پریشانی کا باعث ہیں۔

افغان برقع پوش خواتین، 19 دسمبر 2019 کو ہرات میں خیراتی ادارے کی طرف سے وصول ہونے والے امدادی سامان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

افغان برقع پوش خواتین، 19 دسمبر 2019 کو ہرات میں خیراتی ادارے کی طرف سے وصول ہونے والے امدادی سامان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

اس کی ایک مثال فریاب میں حکام کی طرف سے ایک اعلان تھا کہ انہوں نے صوبہ میں، گزشتہ 10 ماہ میں 2,000 سے زیادہ خواتین کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے ہیں۔

ایک امدادی کارکن جو اپنا نام نہیں بتانا چاہتے تھے،نے کہا کہ "ابھی تک قیاس یہ ہے کہ طالبان بدل گئے ہیں مگر یہ ایک ٹھوس مثال ہے کہ وہ تبدیل نہیں ہوئے ہیں"۔

واشنگٹن نے حال ہی میں عسکریت پسندوں پر تنقید کی تھی کہ وہ گزشتہ سال ہونے والے تاریخی معاہدے پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں جس میں انہوں نے سیکورٹی کے بارے میں بہت سی ضمانتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

اس معاہدے میں غیر ملکی افواج کو مئی تک واپس بلانے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور طالبان اور افغان حکومت کر درمیان امن مذاکرات کی راہ ہموار کی گئی تھی۔

اس معاہدے نے آغاز میں امید پیدا کی تھی کہ عسکریت پسند اپنے سخت گیر خیالات پر ایک زیادہ درمیانی راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں۔

مگر کارکنوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقوں کے کچھ حصوں، خصوصی طور پر شمالی افغانستان میں، حال ہی میں حالات خراب ہو گئے ہیں۔

'وہ بالکل بھی مذاق نہیں کر رہے'

اس بارے میں خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ طالبان، زبردستی اقتدار پر قبضہ کرنے اور افغان معاشرے کے بارے میں اپنے سخت گیر تصور کو دوبارہ سے متعارف کروانے سے پہلے، امریکی افواج کے چلے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔

عسکریت پسند گروہ نے 1996 سے 2001 کے دوران ملک پر اپنے مختصر اقتدار کے دوران، خواتین کو انتہائی سفاکی سے دبایا تھا، ان پر گھر سے باہر جا کر کام کرنے پر پابندی لگائی اور مبینہ خلاف ورزیوں" پر متشدد سزائیں دی تھیں۔

انہوں نے اس وقت سے، افغانستان میں خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے مبہم وعدے کیے ہیں۔

گروپ کی ویب سائٹ پر گزشتہ ماہ چھپنے والے ایک کھلے خط میں، طالبان کے نائب بانی ملا عبدل غنی برادر نے کہا کہ گروہ "اسلامی قوانین کی طرف سے خواتین کو فراہم کیے جانے والے تمام حقوق کو پورا کرنے اور ان کی ضمانت کا عہد رکھتا ہے"۔

تاہم، حقیقی طور پر، امدادی گروہوں کا کہنا ہے کہ طالبان ہمیشہ کی طرح سخت ہیں۔

کچھ کا کہنا ہے کہ پسماندہ خواتین اور لڑکیوں تک رسائی کے لیے، عسکریت پسندوں کے ساتھ نازک تعلقات قائم کرنے کے لیے ان کی سالوں کی محنت ضائع ہو رہی ہے۔

طالبان نے امدادی گروہوں کو بتایا ہے کہ "خواتین کی معاشی خودمختاری، تعلیم اور کھیلوں کے پروگراموں کے لیے خواتین کو ان کے گھروں سے باہر لے جانا "ناقابلِ قبول" ہے۔

انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے سینئر منیجر نے کہا کہ ایسے پروگراموں کے خلاف دباؤکوئی نئی بات نہیں ہے مگر یہ "زیادہ سے زیادہ باضابطہ اور پھیلتا جا رہا ہے"۔

بین الاقوامی امدادی گروہ کے ساتھ کام کرنے والے ایک اور اہلکار نے کہا کہ "جب آپ کو طالبان کی طرف سے ایک خط ملتا ہے، تو وہ مذاق نہیں کر رہے ہوتے، آپ کو اس پر عمل کرنا ہوتا ہے"۔

تقریبا 40 سال تک جاری رہنے والے تنازعہ کے بعد، افغانستان مکمل طور پر بین الاقوامی امداد پر انحصار کر رہا ہے اور لگتا ہے کہ طالبان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے کارکنوں کو روکنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ نگار اینڈریو ویٹکنز نے کہا کہ "امدادی کارکن اور جو امداد وہ فراہم کرتے ہیں، طالبان کی طرف سے خود کو حکومت کرنے والا ادارہ ثابت کرنے کی کوششوں کا نشانہ بن گئی ہے"۔

جابرانہ انداز

امدادی گروہوں کے ساتھ کام کرنے والی افغان خواتین، جو پہلے شمالی افغانستان میں باقاعدگی سے طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقوں کا سفر کرتی تھیں، کا کہنا ہے کہ گروہ نے انہیں کچھ مخصوص علاقوں میں کام کرنے کے لیے داخل ہونے سے روک دیا ہے۔

ایک امدادی کارکن نے کہا کہ "ہم نے انہیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی ہے مگر انہوں نے انکار کر دیا کہ ہمارے پاس عورتیں نہیں ہیں"۔

ایک اور گروہ کا کہنا ہے کہ انہیں طالبان کے زیرِ کنٹرول کچھ علاقوں میں منصوبوں کی نگرانی کے لیے صرف مردانہ عملے کے بھیجنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

ایک نامعلوم امدادی تنظیم کے عملے کے ایک رکن نے کہا کہ انہوں نے نئے امدادی منصوبوں پر کام کے لیے خواتین کو بھرتی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عملے کے ایک رکن نے کہا کہ "انہوں نے کہا کہ انہیں رسائی نہیں ملے گی تو کسی کو دفتر میں بیٹھنے کے لیے بھرتی کرنا بے کار ہے"۔

ایسے علاقے جہاں طالبان زیادہ نرم ہیں اور امدادی کاموں کے لیے خواتین کو اپنے علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں، خاتون افغان امدادی کارکنوں کو برقع پہننا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ خاندان کا کوئی مرد ہونا ضروری ہے اور انہیں ہر بات سوچ کر کرنا پڑتی ہے۔

ایک امدادی کارکن نے کہا کہ "ہم انسانی حقوق یا خواتین کے حقوق جیسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ طالبان ان الفاظ کے بارے میں حساس ہیں"۔

دیگر کا کہنا ہے کہ جب سے طالبان علاقوں پر کنٹرول کے لیے افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ شدید جنگ میں مصروف ہوئے ہیں، سفر کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ انہیں ایک دوسرے پر کی جانے والی فائرنگ کے درمیان آ جانے کا ڈر ہوتا ہے۔

ایک امدادی کارکن نے اے ایف پی کو بتایا کہ "جب ہم سفر کرتے ہیں تو اپنی جانیں ہتھیلی پر لیے ہوتے ہیں کیونکہ ہم اکثر فائرنگ کے تبادلے کے درمیان آ جاتے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500