دہشتگردی

داعش کے رہنما نے شامی اپوزیشن کے چھاپے کے دوران مبینہ طور پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

بین الاقوامی اتحاد کی حمایت یافتہ شامی ڈیموکریٹک فورسز کے ذریعے گروپ کی شکست کے اعلان کے ایک دن بعد، 24 مارچ 2019 کو لی گئی اس تصویر میں شام کے دیر الزور صوبے کے البغوز گاؤں میں زمین پر پڑا داعش کا جھنڈا دکھایا گیا ہے۔ [جیسپی کیکس /اے ایف پی]

بین الاقوامی اتحاد کی حمایت یافتہ شامی ڈیموکریٹک فورسز کے ذریعے گروپ کی شکست کے اعلان کے ایک دن بعد، 24 مارچ 2019 کو لی گئی اس تصویر میں شام کے دیر الزور صوبے کے البغوز گاؤں میں زمین پر پڑا داعش کا جھنڈا دکھایا گیا ہے۔ [جیسپی کیکس /اے ایف پی]

"دولتِ اسلامیہ" (داعش) نے گزشتہ ہفتے اعتراف کیا تھا کہ اس کے رہنما ابو حسن الہاشمی القرشی کو "جنگ میں ہلاک کر دیا گیا ہے" اور اس کے بقیہ سلیپر سیلوں کی سربراہی کے لیے ایک متبادل راہنما کا اعلان کیا گیا۔

لیکن مقامی ذرائع نے بتایا کہ داعش کے سرکردہ رہنما نے درحقیقت محاصرے میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا -- اپنے قلیل المعیاد پیشروؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے۔

30 نومبر کو ایک آڈیو پیغام میں داعش نے ان موت کی تاریخ یا حالات کو بتائے بغیر کہا کہ الہاشمی، جو کہ ایک عراقی تھے، "خدا کے دشمنوں کے ساتھ لڑائی میں مارے گئے"۔

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق، تاہم، الہاشمی کو 14 اکتوبر کو، جنوبی شام کے صوبے درعا کے قصبے جاسم میں، مقامی دھڑوں کی جانب سے کی جانے والی سیکیورٹی کی کارروائیوں کے دوران مارا گیا تھا۔

آبزرویٹری نے بتایا کہ مقامی دھڑوں کے طرف سے کیے جانے والے محاصرے کے بعد، داعش کے کمانڈر نے ایک گھر کے اندر خود کو دھماکے سے اڑا لیا جہاں اسے اپنے خاندان کے ساتھ پناہ دی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا کہ ان کے خاندان کا کوئی فرد ہلاک نہیں ہوا ہے۔

آبزرویٹری نے کہا کہ ایک علیحدہ واقعہ میں، مقامی دھڑوں نے ایک قریبی گھر کو دھماکے سے اڑا دیا جہاں داعش کے دو کمانڈر پناہ لیے ہوئے تھے۔ اس نے کہا کہ ان میں سے ایک لبنانی اور دوسرا شامی شہری تھا۔

درعا کے سرگرم کارکن راشد الحوریانی نے جمعرات کو العربی الجدید کو بتایا کہ القرشی کو مقامی لوگ، ابو عبدالرحمٰن العراقی کے نام سے جانتے تھے اور اس نے تقریباً ایک سال قبل درعا کی ایک خاتون سے شادی کی تھی۔

الحوریانی نے کہا کہ داعش کے سابق رہنما نے جاسم میں ایک "عدالت" قائم کی تھی اور یہ ایک ایسا قدم تھا جس سے شہر میں گروہ کے ارکان کی موجودگی بے نقاب ہوئی تھی۔

الحوریانی کے مطابق، القرشی 17 اکتوبر کو مخالف دھڑوں کے ساتھ جھڑپوں میں مارا گیا تھا۔

ذرائع ابلاغ کے فعالیت پسند، محمد الدراوی نے العربی الجدید کو بتایا کہ داعش کے سیلوں نے حال ہی میں اپنے ایسے حملوں کو تیز کر دیا ہے جن میں اپوزیشن کے شامی دھڑوں کے سابقہ راہنماؤں اور ارکان کو نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ وہ جاسم شہر میں اپنی موجودگی کو مزید مستحکم کر سکیں۔

داعش کے سرکردہ رہنما کی موت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے آڈیو پیغام میں، گروپ نے کہا کہ ابو الحسین الحسینی القرشی کو اس گروہ کا چوتھا لیڈر نامزد کیا گیا ہے۔

قریش قبیلے سے تعلق رکھنے کو - جو کہ پیغمبر محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کا قبیلہ ہے - کو داعش کا لیڈر بننے کے لیے ایک لازمی شرط کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

پیغام میں نئے رہنما کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں لیکن کہا گیا ہے کہ وہ "تجربہ کار" ہیں اور داعش کے وفادار تمام گروہوں سے ان کے ساتھ وفاداری کا عہد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

'داعش کو ایک اور جھٹکا'

امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ الہاشمی، اکتوبر کے وسط میں صوبہ درعا میں فری سیرین آرمی (ایف ایس اے) کے شامی اپوزیشن جنگجوؤں کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔

سینٹ کام کے ترجمان کرنل جو بوکینو نے کہا کہ اکتوبر کے وسط میں ابو حسن الہاشمی القرشی کی موت "داعش کے لیے ایک اور دھچکا ہے۔"

انہوں نے خبردار کیا کہ "داعش خطے کے لیے ابھی بھی ایک خطرہ ہے"، تاہم، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی اور شراکت دار افواج "داعش کی پائیدار شکست پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں"۔

بین الاقوامی اتحاد نے کہا کہ بدھ کے روز، دیر الزور میں امریکی حمایت یافتہ کرد فورسز نے داعش کے 10 رکنی سیل کو ختم کر دیا اور سیل کے ارکان کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود قبضے میں لے لیا ہے۔

آبزرویٹری نے کہا کہ شمالی درعا کے قصبے جاسم میں، جمعرات کو ایک کھلے عام لگنے والے بازار میں، نصب ایک دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) نے خوف و ہراس پھیلا دیا، کیونکہ مقامی باشندوں کو الہاشمی کی موت پر داعش کی طرف سے انتقامی کارروائی کا خدشہ تھا۔

آبزرویٹری نے کہا کہ مقامی دھڑوں سے تعلق رکھنے والے دھماکہ خیز مواد کے ماہرین کی ایک ٹیم نے، بازار کو خالی کرنے اور اس کے داخلی راستوں کو روکنے کے بعد، آئی ای ڈی کو ناکارہ بنا دیا۔

آبزرویٹری نے کہا کہ مقامی حکام نے مساجد کے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے رہائشیوں کو آگاہ کیا کہ وہ سیکورٹی کی وجوہات اور داعش کے متوقع حملوں کے خدشات کے پیش نظر، بازار کا رخ نہ کریں۔

قلیل معیاد کے لیے زندہ رہنے والے داعش کے رہنما

داعش کے سابق سربراہ، ابو ابراہیم القرشی نے اس سال فروری میں شمالی شام کے صوبے ادلب میں امریکی حملے کے دوران اپنے ہی خاندان کے افراد سمیت خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔

ان کے پیشرو ابوبکر البغدادی کو بھی اکتوبر 2019 میں ادلب میں مارا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرائن جین پیئر نے کہا کہ الہاشمی کی موت "کسی امریکی کارروائی کا نتیجہ نہیں تھی"۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں اتنی جلدی، یکے بعد دیگرے داعش کے رہنماؤں کو ہٹائے جانا دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔ امریکہ داعش کی طرف سے درپیش عالمی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔"

داعش کی قیادت کو اس سال بار بار دھچکا لگا ہے۔

اکتوبر میں، امریکی افواج نے شمال مشرقی شام میں سورج نکلنے سے پہلے کی چھاپہ مار کارروائی میں، داعش کے ایک "سینئر" عنصر کو ہلاک کر دیا تھا۔ سینٹ کام نے یہ بات اس وقت بتائی تھی۔

سینٹ کام نے کہا کہ چھاپے میں "رکان واحد الشماری جو کہ داعش کا اہلکار تھا اور ہتھیاروں اور جنگجوؤں کی اسمگلنگ میں سہولت کاری کے لیے جانا جاتا تھا، کو نشانہ بنایا گیا"۔

اس نے کہا کہ بعد میں کیے گئے فضائی حملے میں داعش کے دو دیگر سینئر عناصر ہلاک ہو گئے۔

جولائی میں پینٹاگون نے کہا تھا کہ اس نے ملک کے شمال میں ایک ڈرون حملے میں شام کے سرکردہ داعش رہنما کو ہلاک کر دیا ہے۔

سینٹ کام نے کہا کہ وہ داعش کے "سب سے اونچے پانچ" رہنماؤں میں سے ایک تھا۔

جون میں، بین الاقوامی اتحادی افواج نے کہا تھا کہ انھوں نے شمالی شام کے صوبے حلب میں طلوع فجر سے قبل کیے گئے فضائی آپریشن میں داعش کے ایک سینیئر بم بنانے والے کو پکڑ لیا۔

واشنگٹن پوسٹ کی خبر کے مطابق، بین الاقوامی اتحاد نے ہدف بنائے گئے داعش کے کارندے کا نام نہیں بتایا لیکن امریکی حکام نے اس کی شناخت ہانی احمد الکردی کے نام سے کی، جسے "الرقا کا ولی" بھی کہا جاتا ہے، جو داعش کا اصل دارالحکومت ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500