دہشتگردی

داعش رہنما حریف تحریرالشام کی ناک تلے روپوش تھا

پاکستان فارورٍڈ اور اے ایف پی

4 فروری کو صوبہ ادلیب کے قصبہ اتمے میں اس گھر کے قریب جہاں داعش رہنما ابراہیم الہاشمی القریشی امریکی سپیشل فورسز کے ایک چھاپے میں ہلاک ہوا، اسی رہائش گاہ کے ایک ہمسائے کی تصویر دکھائی گئی ہے۔ [عارف واتاد/اے ایف پی]

4 فروری کو صوبہ ادلیب کے قصبہ اتمے میں اس گھر کے قریب جہاں داعش رہنما ابراہیم الہاشمی القریشی امریکی سپیشل فورسز کے ایک چھاپے میں ہلاک ہوا، اسی رہائش گاہ کے ایک ہمسائے کی تصویر دکھائی گئی ہے۔ [عارف واتاد/اے ایف پی]

ادلیب – شام کے صوبہ ادلیب پر برتری کے حامل شدت پسند اتحاد تحریر الشام نے اتوار (6 فروری) کو کہا کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ حال ہی میں ہلاک ہونے والا "دولتِ اسلامیہٴ عراق و شام" (داعش) رہنما اس علاقہ میں چھپا ہوا ہے۔

چوٹی کے داعش رہنما ابو ابراہیم الہاشمی القریشی نے ادلیب کے قصبہ اتمے کے قریب امریکی سپیشل فورسز کی جانب سے جمعرات کو مارے جانے والے ایک چھاپے کے دوران اپنے ہی اہلِ خانہ کے ہمراہ خود کو دھماکے سے اڑا لیا ۔

اس داعش رہنما کا خوب معروف پیش رو ابو بکرالبغدادی بھی اکتوبر 2019 میں اس مقام سے صرف 15 کلومیٹر کے فاصلے پر مارا گیا تھا جہاں القریشی ہلاک کیا گیا۔ کرد افواج نے دونوں چھاپوں میں شرکت کی۔

اگرچہ تحریر الشام جنوب مغربی صوبہ پر تسلط رکھتا ہے، جس کا نظم و نسق وہ نام نہاد "متوازی حکومت" کے ذریعے چلاتا ہے، تاہم معلوم ہوتا ہے کہ اسے حریف شدت پسندوں کے آنے اور جانے کا کچھ علم نہیں تھا۔

20 ستمبر، 2019 کو ایک مظاہرے کے دوران تحریر الشام کے عناصر مظاہرین کو شام کے صوبہ ادلیب اور ترکی کے درمیان سرحدی پھاٹک تک پہنچنے سے روک رہے ہیں۔ [عمر حاج کادور/اے ایف پی]

20 ستمبر، 2019 کو ایک مظاہرے کے دوران تحریر الشام کے عناصر مظاہرین کو شام کے صوبہ ادلیب اور ترکی کے درمیان سرحدی پھاٹک تک پہنچنے سے روک رہے ہیں۔ [عمر حاج کادور/اے ایف پی]

مشاہدین کا کہنا ہے کہ اس سے ادلیب میں موجود ابتری اور لاقانونیت کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے اور تحریر الشام کے نظامِ حکومت کی بے ثباتی آشکار ہوتی ہے۔

اس سے حریف شدت پسند گروہوں کے مابین تشدد کے ایک اور دور کو بھی تقویت مل سکتی ہے، جن کی ادلیب میں ایک دوسرے پر حملے کرنے کی طویل تاریخ ہے۔

اتوار کو تحریر الشام نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس گھر کے "رہائشیوں کی شناخت" سے بے خبر تھا جنہیں امریکی افواج نے ہدف بنایا۔

شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق کے مطابق، تحریر الشام خطے میں داعش سے منسلک سیلز کے خلاف کبھی کھبار آپریشن کرتی رہتی ہے اور حالیہ مہینوں میں انہوں نے داعش سے منسلک مسلح شدت پسندوں سے لڑائی کی ہے۔

حالیہ برسوں میں تحریر الشام نے خود کو صرف شام سے متعلقہ امور پر مرتکز، ایک مزید اعتدال پسند کردار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن متعدد اس گروہ کے تشدد کے سابقہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس پر یقین کرنا مشکل سمجھتے ہیں۔

تحریر الشام اندھیرے میں

القریشی کو رات کے وقت اس اپارٹمنٹ پر چھاپے کے دوران ہلاک کیا گیا جو اس نے تحریر الشام کے زیرِ قبضہ اور داعش کے علاقہٴ کاروائی سے بہت دور ایک قصبے، اتمے میں کرائے پر لے رکھا تھا۔

جبکہ تحریر الشام اپنے ہی بیان کے مطابق، اپنے درمیان داعش رہنما کی موجودگی سے لاعلم رہا، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس القریشی کا مقام مزید تنگ کر دیا گیا تھا۔

جس عمارت میں رہنما روپوش تھا، اس کے مالک نے کہا کہ القریشی یہاں 11 ماہ سے رہائش پذیر تھا۔

جب جمعرات کا چھاپہ شروع ہوا، اتمے کے رہائشیوں کا خیال تھا کہ امریکی افواج کسی القاعدہ رہنما کو ہدف بنا رہی ہیں۔

حالیہ مہینوں میں امریکی سپیشل فورسز نے ادلیب کے علاقہ میں اعلیٰ قدر کے دہشتگرد اہداف کے خلاف متعدد آپریشنز کیے ہیں۔

اتمے کے رہائشی یہ سن کر سکتے میں آ گئے کہ زیتون کے درختوں سے گھرے ایک جدید دو منزلہ گھر میں ان کا ہمسایہ دراصل داعش رہنما تھا۔

یہاں تک کہ اس کا مالک مکان محمد الشیخ بھی اس خبر سے متحیر تھا۔ اس کے خیال میں اس نے اپنا گھر ایک ٹیکسی ڈرائیور کو کرائے پر دے رکھا تھا۔

الشیخ نے کہا کہ القریشی نے تقریبا ایک برس قبل وہ گھر کرائے پر لیا۔

الشیخ نے کہا، "یہ شخص یہاں (اس گھر میں) 11 ماہ رہا۔ میں نے اس سے متعلق کچھ عجب نہیں محسوس کیا۔ وہ مجھے کرایہ دیتا اور چلا جاتا۔"

اس نے کہا، "اگر میں اس کے بارے میں جانتا تو کبھی اسے اپنے گھر میں رہنے نہ دیتا۔"

صوبہ ادلیب میں لاقانونیت

تجزیہ کار دلیل دیتے ہیں کہ یہ امر کچھ زیادہ حیران کن نہیں ہے کہ القریشی کا تعاقب داعش کے وسطی علاقہ سے بہت دور ایک ایسے علاقہ میں کیا گیا جو دریائے دجلہ و فرات کے درمیان عراق شام سرحد کی وسیع و عریض بنجر اراضی پر محیط ہے۔

سینچری انٹرنیشنل میں ایک فیلو ایرون لنڈ نے کہا، "ادلیب بے گھر افراد سے بھرا ایک ابتر میدانِ جنگ ہے، جہاں خال پولیسنگ اور کوئی حقیقی ریاستی ڈھانچہ یا ریکارڈ نہیں ہے۔"

داعش پر لکھی جانے والی ایک کتاب کے مصنف تجزیہ کار حسن حسن نے کہا کہ ادلیب ایک داعش رہنما کے لیے مغربی عراق یا مشرقی شام میں علاقوں سے زیادہ محفوظ ہے جہاں داعش مخالف افواج نے شدت پسندوں کے تعاقب میں برسوں کا تجربہ حاصل کر رکھا ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ داعش کے لیے ایک دشمن علاقہ ہے کیوں کہ اس کے مخالف شمالی شام کے اس حصے پر برتری رکھتے ہیں، تاہم یہ درست طور پر روپوش ہونے کے لیے ایک صحیح مقام ہے جہاں ان کی موجودگی کی کوئی توقع نہیں کرتا۔"

حسن نے کہا کہ القریشی کے قریبی ساتھی دو برس سے اس علاقہ میں اس گروہ کی سرگرمیاں چلا رہے تھے اور کاروبار بنا رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہاں، "یہ گروہ کمزور اور زدپزیر رہا ہے"، انہوں نے مزید کہا کہ جمعرات کا چھاپہ داعش رہنماؤں کا تعاقب کرنے والی امریکی اور اتحادی افواج کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کا ایک اور ثبوت تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500