دہشتگردی

اعلیٰ عہدے کے لیے قحط الرجال، داعش کی جانب سے نامعلوم امیر کا تقرر

از ولید ابو الخیر اور اے ایف پی

11 مارچ کو ٹیلی گرام پر پوسٹ کی گئی تصویر میں عراق میں داعش کے ارکان کا ایک گروہ اپنے نئے امیر کی بیعت کرتے ہوئے۔ [فائل]

11 مارچ کو ٹیلی گرام پر پوسٹ کی گئی تصویر میں عراق میں داعش کے ارکان کا ایک گروہ اپنے نئے امیر کی بیعت کرتے ہوئے۔ [فائل]

دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) نے جمعرات (10 مارچ) کے روز آٹھ سال سے بھی کم عرصے میں اپنا تیسرا امیر نامزد کیا ہے، صرف ایک ماہ پہلے ہی اس کے پیشرو نے شام میں ایک امریکی چھاپے کے دوران، خود کو اپنے اہلِ خانہ سمیت دھماکے سے اڑا لیا تھا۔

نئے امیر ابو حسن الہاشمی القریشی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں، جنہوں نے اپنے پیشرو کی ذلت آمیز موت کے بعد ایک ایسے گروہ کی باگ ڈور سنبھالی ہے جو ارکان اور طاقت کے لحاظ سے ماضی سے بھی زیادہ کمزور اور ناتواں ہے۔

پُرتشدد انتہاء پسند تنظیم کو کچلنے کے لیے کامیاب کارروائیوں کے نتیجے میں، اعلیٰ قیادت کی تبدیلی داعش کے آغاز سے ہی اس کا طرۂ امتیاز رہی ہے۔

ابو ابراہیم القریشی کے پیشرو ابو بکر البغدادی نے بھی اکتوبر 2019 میں شام میں امریکی حملے کے دوران خود کو ایک سرنگ میں دھماکے سے اڑاتے ہوئے اپنے ساتھ دو بچوں کو ہلاک کر لیا تھا.

امریکہ نے "داعش پر دباؤ برقرار رکھنے" کے لیے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہنے کے عزم کا اظہار کیا، جس میں صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ پچھلے چھاپے نے "دنیا بھر کے دہشت گردوں کو ایک بھرپور پیغام بھیجا ہے: ہم تمہارا تعاقب کریں گے، اور تمہیں تلاش کریں گے"۔

جمعرات کے روز داعش کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ کیے گئے ایک آڈیو پیغام میں داعش کے سابق امیر اور گروہ کے سابق ترجمان ابو حمزہ القریشی کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔

یہ پیغام نئے ترجمان ابو عمر المہاجر نے دیا تھا۔

افغانستان اور پاکستان میں داعش بدستور ایک فعال عفریت ہے۔

اس کی خراسان شاخ (داعش-خ) نے 4 مارچ کو پشاور میں ایک شیعہ مسجد میں خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔.

غیر معروف امیر

ابو حسن القریشی نے ایک ایسے وقت میں قیادت سنبھالی ہے جب داعش عراق اور شام میں ایسی امریکی حمایت یافتہ کارروائیوں سے کمزور ہو چکی ہے جن کا مقصد اس کے دوبارہ سر اٹھانے کو ناکام بنانا ہے۔

داعش کے آڈیو بیان کے مطابق ابو ابراہیم نے اپنی موت سے قبل ان کی توثیق کی تھی اور اس تقرری کی تصدیق گروہ کے اعلیٰ رہنماؤں کی جانب سے کی گئی تھی۔

ریکارڈنگ میں مزید تفصیلات پیش نہیں کی گئیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپنے پیشرو کی طرح، داعش کا نیا امیر ایک نامعلوم شخصیت ہے۔

کنگز کالج لندن کے شعبۂ جنگی مطالعات کے محقق ٹور ہیمنگ نے کہا کہ اس کی شناخت کے متعلق "ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں ہے"۔

سوفان گروپ کے ریسرچ ڈائریکٹر کولن کلارک نے کہا کہ داعش نے "ایک نسبتاً غیر معروف شخصیت کا انتخاب کیا کیونکہ بینچ کافی حد تک سُکڑ گیا تھا"۔

جہاد اینالٹکس کنسلٹنسی کے ڈائریکٹر ڈیمین فیرے نے کہا کہ گروہ کے جانشین کا انتخاب ممکنہ طور پر ابو ابراہیم کی موت سے پہلے کیا گیا تھا تاکہ اندرونی تقسیم کو روکا جا سکے۔

"یہ فیصلہ گروپ کے بھرپور عدم استحکام سے بچنے کے لیے جلد کیا گیا تھا،" انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 2019 کی جانشینی پر بھی ایسی ہی منطق کا اطلاق ہوتا ہے۔

داعش پر نظر رکھنا

دہشت گرد گروہ کے ماہر وائل عبدالمطلب نے المشارق کو بتایا کہ نئے امیر کی تقرری سے ظاہر ہوتا ہے کہ "داعش اپنے پیروکاروں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے اپنی نظریاتی جنگ کے ایک جزو کے طور پر، اگر صرف میڈیا میں ہو، تو زیادہ دیر تک زندہ رہنے کے لیے پُرعزم ہے۔"

شامی صحافی محمد العبداللہ نے المشارق کو بتایا کہ داعش نے یوکرین پر روس کے حملے کے بارے میں عالمی برادری کی مصروفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ یہ گروپ کچھ علاقوں میں اپنے سلیپر سیلز کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کرے گا، جو شامی جمہوری افواج (ایس ڈی ایف) کی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کی زمین پر اپنے اتحادیوں کی حمایت جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

عبداللہ نے کہا، "اتحادیوں نے گزشتہ عرصے میں گروہ کے خلاف جنگ میں اپنی طاقت اور تاثیر ثابت کی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ "موجودہ وقت میں، گروہ کی صلاحیتیں دم توڑ رہی ہیں اور اس کی کارروائیاں کم خرچ بالا نشین حملوں تک محدود ہیں، اور ان کا دائرۂ کار دوبارہ وسیع ہونے سے پہلے اسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500