دہشتگردی

داعش-کے نے افغان سرزمین سے ازبکستان پر راکٹ حملے کی ذمہ داری قبول کر لی

پاکستان فارورڈ

داعش کی جانب سے 18 اپریل کو ازبکستان پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے جزُ کے طور پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر میں داعش کا ایک رکن بموں کے ساتھ تصویر بنوا رہا ہے۔ [فائل]

داعش کی جانب سے 18 اپریل کو ازبکستان پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے جزُ کے طور پر پوسٹ کی گئی ایک تصویر میں داعش کا ایک رکن بموں کے ساتھ تصویر بنوا رہا ہے۔ [فائل]

"دولتِ اسلامیہٴ عراق و شام" کی خراسان شاخ (داعش-کے) نے پیر (18 اپریل) کو ازبکستان کے خلاف ہمسایہ افغانستان سے ایک راکٹ حملے کی ذمہ داری قبول کی، جو اس گروہ کی جانب سے ایک وسط ایشیائی ملک پر اس طرز کی پہلی بمباری تھی۔

داعش نے کہا کہ اس گروہ نے جنوبی ازبکستان کے سرحدی شہر تمریز میں تعینات ازبک افواج پر 10 کتیوشا راکٹ چلائے، مزید کہا گیا کہ اس حملے کے بعد داعش کے ایک ترجمان کی جانب سے ایک آڈیو پیغام آیا۔

17 اپریل کو داعش نے دنیا بھر سے تمام جنگجوؤں سے حکام اور فوجیوں کو نشانہ بناتے ہوئے "بڑے اور دردناک حملے" کرنے کا کہا۔

ازبک صدر شوکت مرزییوف کے ترجمان شیرزاد اسداوف نے کسی بھی امر کے وقوع پذیر ہونے کی تردید کی، اور کہا کہ ازبک افغان سرحد پر کسی سرگرمی کی اطلاع نہیں ملی۔

داعش کی ویڈیو سے ایک سکرین شاٹ میں وہ لمحہ دکھایا گیا ہے جب پہلا کتیوشا راکٹ چلایا گیا۔ [فائل]

داعش کی ویڈیو سے ایک سکرین شاٹ میں وہ لمحہ دکھایا گیا ہے جب پہلا کتیوشا راکٹ چلایا گیا۔ [فائل]

اسی طرح سے ازبک وزارتِ دفاع نے بھی ایسے کسی بھی واقعہ کی تردید کی۔

تاہم، داعش نے اس واقعہ کی تصاویر اور ویڈیو فراہم کیں، اور افغانستان میں حکام نے کہا کہ ان کی افواج نے ان "ناکام حملوں" کے سلسلہ میں ہیراتن میں تین گرفتاریاں کیں۔

بڑھتا ہوا خدشہ

افغانستان میں جاری سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتِ حال کے دوارن داعش – کے کی جانب سے حالیہ حملوں نے خدشات پیدا کر دیے ہیں کہ یہ گروہ ملک میں اپنی بھرتی مہم کو پھیلا رہا ہے اور خطے کے لیے ایک سنجیدہ خدشہ کا باعث بن رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ اگست کے بعد سے دہشتگردانہ کاروائیوں میں تقریباً 400 شہری جاںبحق ہو چکے ہیں جن میں سے اکثر داعش نے کی ہیں۔

ترکی سے تعلق رکھنے والے ایک عسکری تجزیہ کار اور پروان اور فاراح صوبوں کے سابق گورنر عبدالبصیر سالنگی نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا، "داعش اب افغانستان کے لیے ایسا حقیقی خطرہ بن گیا ہے جیسا پہلے کبھی نہ تھا"۔

انہوں نے کہا، "اگر ہمسایہ علاقائی ممالک کی جانب سے اور ان سے آگے تک داعش کی حمایت جاری رہتی ہے تو یہ گروہ بالآخر مزید خدشہ لاحق کرے گا اور اسے شکست دینا نہایت مشکل ہو جائے گا۔"

ہیرات میں ایک عسکری تجزیہ کار محمّد نائم غوری نے کہا کہ داعش افغانستان میں اقتدار کے حالیہ خلاء کو ملک بھر میں اپنے عسکریت پنسدوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کرنے کے ایک موقع کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

رواں ماہ کے اوائل ہی میں انہوں نے مزید کہا، "داعش کی جانب سے حالیہ مہینوں میں حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ اس دہشتگرد گروہ نے نہ صرف اپنے قدم جما لیے ہیں بلکہ افغانستان کی سیکیورٹی کو چیلنج کرنے کی استعداد بھی حاصل کر لی ہے۔"

روس کا خطرہ

پسمنظر میں، یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ وسط ایشیا کے لیے ایسی دہشتگردانہ کاروائیاں کن نتائج کی حامل ہو سکتی ہیں۔

متعدد افغان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس خطے کے ممالک پر اپنی برتری کو پختہ کرنے کی غرض سے عمداً داعش کے خطرہ میں مبالغہ آمیزی کر رہا ہے۔

افغانستان کے ہمسایوں میں سے تین، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان سابقہ سوویت جمہوریتیں ہیں، جو کہ تاحال ماسکو کے رسوخ میں ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں یہ کریملن کے مدار سے باہر نکلنے کے لیے کوشاں ہیں۔

خودمختاری کی جانب اس اقدام نے روسی صدر ویلادیمیر پیوٹین اور ان کے اتحادیوں کو فکرمند کر دیا ہے، اور مشاہدین کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ کیسے روسی ان ممالک کو واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پیوٹین نے خودمختار ریاستوں کی دولتِ مشترکہ (سی آئی ایس) کے ایک ورچوٴل اجلاس میں کہا کہ روسی انٹیلی جنس نے تعین کیا ہے کہ تقریباً 2,000 سخت جان جنگجو داعش عسکریت پسند شمالی افغانستان میں اکٹھے ہو رہے ہیں اور یہ "براہِ راست پھیلاؤ" کے ذریعے قریبی ممالک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

کابل سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی امور کے ایک تجزیہ کار لطیف نذری نے پیوٹن کی آراء کے ردِّ عمل میں کہا کہ کسی اور انٹیلی جنس ایجنسی نے ایسی کثیف موجودگی نہیں بتائی، اور افغانستان کی شمالی سرحد سے داعش کی قربت میں معالغہ آرائی کر کے روس خطے کے تمام ممالک کو اپنے زیرِ انتظام لانے کے لیے ان پر اپنا سیاسی اور سیکیورٹی سے متعلق رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

مارچ میں روس کے وزیرِ خارجہ سیرگی لاؤروف نے اپنے حاکم کے نقطہٴ نظر کی بازگشت سنائی۔

رائیٹرز کے مطابق، لاؤروف نے کہا، "داعش اور اس کے حامیوں کے وسط ایشیائی ریاستوں کو غیر مستحکم کرکے روس میں عدم استحکام برآمد کرنے کے منصوبے خصوصی طور پر خدشہ کا باعث ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500