تاشقند -- ازبکستان سے پاکستان تک بچھائی جانے والی ریلوے کی پٹری پر ابتدائی کام شروع ہو گیا ہے جو تاشقند کو، نقل و حمل کے روسی راستوں سے بچ کر گزرنے کے قابل بنا سکتی ہے جبکہ ماسکو کو یوکرین پر حملے کے بعد سے مسلسل مغربی پابندیوں کا سامنا ہے۔
ازبکستان، پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے 18 جولائی کو، افغانستان میں ٹرانس افغان ریلوے کے راستے کا تعین کرنا شروع کر دیا۔ یہ خبر ازبک خبر رساں ایجنسی ڈنیو نے افغانستان میں پاکستان کے خصوصی ایلچی محمد صادق کے حوالے سے دی ہے۔
فروری 2021 میں تاشقند میں حکام نے ریلوے کی تعمیر کے لیے ایک منصوبے پر دستخط کیے، جو مزار شریف اور کابل، افغانستان اور پشاور، پاکستان کے درمیان چلے گی۔
ازبک ساختہ ریلوے پہلے ہی ترمیز، ازبکستان سے مزار شریف تک چلتی ہے۔
ریلوے کی تکمیل کے بعد، پشاور میں، کارکن سامان اتاریں گے اور پھر اسے کراچی، گوادر اور قاسم کی پاکستانی بندرگاہوں پر لے جایا جائے گا۔
دی ڈپلومیٹ نے 26 جولائی کو خبر دی تھی کہ ریلوے کی تعمیر-- پہلی بار ازبکستان کی طرف سے 2018 میں تجویز کی گئی -- توقع ہے کہ اس پر 4.8 بلین ڈالر کی لاگت آئے کی اور اسے مکمل ہونے پر پانچ سال لگیں گے۔
منصوبے کے مطابق، اپنی تکمیل کے بعد، تقریباً 600 کلومیٹر طویل ریلوے کی پٹری، ازبکستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کو بحر ہند کے قریب لے جائے گی اور ازبکستان سے پاکستانی بندرگاہوں تک سامان پہنچانے کے لیے درکار وقت کو 30 سے 35 دن سے کم کر کے 10 سے 15 دن کر دے گی۔
فروری 2021 میں شائع ہونے والی Gazeta.uz کی رپورٹ کے مطابق، نقل و حمل کے اخراجات میں بھی 35 سے 30 فیصد کمی متوقع ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اپنے پہلے کے چند سالوں میں، ٹرانس افغان کوریڈور ہر سال 10 ملین ٹن تک کارگو لے جا سکتا ہے۔
روس پر انحصار کم کرنا
تاشقند ٹائمز کے مطابق، ازبک صدر شوکت مرزی یوئیف نے جنوری 2020 میں پارلیمنٹ کو بتایا کہ ازبکستان اپنی غیر ملکی تجارت کا تقریباً 80 فیصد منتقل کرنے کے لیے قازقستان، کرغزستان، روس اور بیلاروس کے راستے شمال میں جانے والے یوریشین ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر پر انحصار کرتا ہے۔
ازبکستان کو بین الاقوامی منڈیوں سے جوڑنے والے نقل و حمل کی آٹھ اہم راہداریوں میں سے تین روس سے گزرتی ہیں۔
لیکن اب، فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد، مغربی پابندیوں کی وجہ سے ان راستوں میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔
مارچ میں اسلام آباد کے ایک دورے کے دوران، مرزائیوف نے اس منصوبے کی خصوصی اہمیت کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ "ریلوے [ترمز-مزار شریف-کابل-پشاور روٹ] ہمارا مشترکہ مستقبل ہے۔ جب اس راستے کی تعمیر مکمل ہو جائے گی تو ہم پاکستان کو وسطی ایشیا سے ملانے والی سب سے مختصر، سستی اور محفوظ ترین راہداری بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔"
Podrobno.uz کے مطابق، مرزییوئیف نے کہا کہ "یہ ریلوے ہمارے علاقوں کی شکل کو مکمل طور پر تبدیل کر دے گی۔"
آزادی کو مضبوط کرنا
تاشقند، فروری میں جنگ کے آغاز کے بعد سے، روس کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کے حوالے سے ایک نازک توازن برقرار رکھے ہوئے ہے، لیکن ثانوی پابندیوں کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔
تاشقند کے ایک ماہرِ سیاسیات فرخود مرزا بائیف نے کہا کہ اب، پہلے سے کہیں زیادہ، ازبکستان کو نقل و حمل کے نئے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطے اور دنیا کی جغرافیائی سیاسی صورتحال، منصوبہ شدہ ٹرانس افغان ریلوے کو اور بھی زیادہ ضروری بناتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "تمام موجودہ مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود، ازبکستان کو اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے افغانستان اور پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔"
"ہمیں شکی ماہرین اور سیاست دانوں کی آراء اور دلائل کے بارے میں فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ ریلوے ہماری آزادی کو مضبوط کرے گی۔"
کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ مشکلات ابھی باقی ہیں۔
ایک ازبک مورخ روشن نظروف کے مطابق، مستحکم سماجی و اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے اقوام کو مختلف قسم کے نقل و حمل کے راستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ازبکستان اس وقت، قازقستان اور روس کے ذریعے، صرف پرانی اور ثابت شدہ شمالی راہداریوں کا استعمال کرتا ہے۔
جنوب کی طرف افغانستان سے جانے والے راستے، مشرق کی طرف کرغزستان اور چین کے ذریعے اور مغرب کی طرف بحیرہ کیسپین اور قفقاز کے ذریعے جانے والے راستے ابھی بھی کام کر رہے ہیں۔
نظروف نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ افغانستان میں عدم استحکام جنوبی راستے کے لیے ایک چیلنج ہے، کہا کہ ان متبادل راستوں میں سے، "آج تک، سب سے زیادہ حقیقت پسندانہ راستہ مشرقی راستہ ہے -- کرغزستان اور چین سے ہوتا ہوا"۔
تاشقند کے میکسم متنزاروف، جو ایک مورخ اور سوویت افغان جنگ میں شامل ہونے والے سابقہ فوجی ہیں، نے اس بات سے اتفاق کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کا عدم استحکام "بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور بڑی عالمی طاقتوں کو ریلوے منصوبے کی طرف راغب کرنے کے معاملے کو پیچیدہ بناتا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کا قطعہ زمین بھی پہاڑی ہے، اس لیے اسے عبور کرنے کے لیے بہت سے پلوں، سرنگوں اور دیگر بائی پاس سڑکوں کی ضرورت ہوگی، جس سے تعمیراتی اخراجات میں اضافہ ہو گا۔
علاقائی روابط اور انتخابات
پھر بھی، اس منصوبے کو علاقائی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔
قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکایف نے 21 جولائی کو وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان کی ملاقات کے دوران کہا تھا کہ قازقستان ٹرانس افغان ریلوے کی تعمیر میں مدد کے لیے تیار ہے۔
Kapital.kz کے مطابق، انہوں نے کرغزستان کے چولپون-آتا میں کہا کہ "ہم ریلوے کی تعمیر کے لیے سامان کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنا سکتے ہیں اور ریلوے کی گاڑیوں اور انجنوں کو فراہم کر سکتے ہیں۔"
دریں اثنا، پاکستان اور ازبکستان پہلے ہی ایک سڑک کے ذریعے منسلک ہیں جو افغانستان سے گزرتی ہے۔ ازبکستان کی وزارتِ ٹرانسپورٹ کے مطابق، جون میں، ازبک ٹرک ڈرائیوروں نے اسے پہلی بار پاکستان کو ساز و سامان پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔
کراچی تک 2,760 کلومیٹر کا طویل سفر طے کرنے میں میں ایک ہفتہ لگا۔ ٹرکوں نے منجمد گوشت پہنچایا۔
دریں اثنا، جارجیا کے وزیر اعظم ایراکلی گریباشویلی نے 19 جولائی کو ازبکستان کے دورے کے دوران، جارجیا کی بحیرہ اسود کی پوٹی اور باتومی بندرگاہوں کے ذریعے، یورپ کو ازبک مصنوعات برآمد کرنے کا امکان تجویز کیا۔
تاشقند کے ماہرِ سیاسیات مرزابایف نے کہا کہ اگرچہ یوکرین کی بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کی روسی بحری ناکہ بندی، ان بندرگاہوں کو فی الحال استعمال کرنا ناممکن بناتی ہے، لیکن جغرافیائی سیاسی حقائق بھی جارجیا کے ذریعے آمدورفت کا حکم دیتے ہیں۔
افغانستان کے ایک آزاد ازبک تجزیہ کار اکرم عمروف نے کہا کہ "ازبکستان موجودہ متبادل راستوں پر زیادہ زور دینے کی کوشش کر رہا ہے، بشمول جنوبی قفقاز کے راستے -- باکو- تبلیسی- کارس ریلوے"۔
انہوں نے کہا کہ یہ راستہ زمینی اور سمندری راستے سے، یورپ تک رسائی ممکن بناتا ہے۔