تاشقند — ازبکستان اور قازقستان دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک گروہ بنا رہے ہیں۔
ازبکستان آبادی کے لحاظ سے وسط ایشیا کا سب سے بڑا ملک ہے، جبکہ قازقستان کے پاس خطے کی سب سے بڑی معیشت ہے۔
دونوں ممالک کی نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کے نمائندگان نے شدت پسندی اور اپنے سرحدی حلقے میں دونوں ممالک میں ہونے والے جرائم کے خلاف ایک مشترکہ منصوبہ پر بات چیت کرنے کی غرض سے 20 مئی کو شئیمکینٹ، قازقستان میں ملاقات کی۔
حکام نے سرحدی حلقے کی سلامتی پر اپنے ممالک کا تعاون بڑھانے کے معاہدوں پر دستخط کیے۔
2 مئی کو دونوں ممالک کے اپنی سرحدوں کی نشاندہی سے متعلق ایک حتمی معاہدے پر پہنچنے کے بعد یہ خبر سامنے آئی۔
وہ 2004 سے اس معاملہ پر مذاکرات کر رہے تھے۔
ایک تاشقند-اساسی ادراہ برائے مشرقی علوم کے ایک محقق عطابیک خائیتکولوف نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی 2,159 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ”وسط ایشیا کی سب سے بڑی سرحد ہے۔ ہر روز ہزاروں افراد دونوں طرف سے سرحد پار کرتے ہیں۔“
خائیتکولوف نے کہا کہ 1920 کی دہائی میں اس وقت کی سوویت جمہوریتوں کے درمیان سرحد کھینچنے والے سوویت حکام نے ”[ایک دوسرے کے آمنے سامنے] صوبوں کی نسلی ترکیب کو نظرانداز کر دیا،“ جس نے 1991 میں یو ایس ایس آر کے سقوط کے بعد سرحدی تنازعات کو جنم دیا۔
مثال کے طور پر، انہوں نے کہا کہ 2016 کے اعداد و شمار کے مطابق، صوبہ جنوبی قازقستان کی 16.8 فیصد آبادی ازبک النسل ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بڑی قازق النسل کمیونیٹیز تین ازبک صوبوں میں سکونت پذیر ہیں۔
صوبہ تاشقند کے رہائشی دونیژیر علیژیو نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا، ”1990 کی دہائی میں کوئی مستحکم سرحدیں نہیں تھیں، جس کی وجہ سے متعدد مسائل پیدا ہوئے اور یہ امر [بشمول] کم درجے کی سمگلنگ کے، جرائم میں اضافے کا باعث بنا۔“
ایک عمومی راستے کی تلاش؛ دہشتگردی کے خلاف قیام
تاہم، ابتدائی طور پر بعد از سوویت تلخ برسوں کے بعد دونوں ممالک 2015-2016 میں تعاون کی ایک نئی سطح تک پہنچے۔
ازبک وزارتِ خارجہ کے ترجمان فرید عمروف نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا، ”2 مئی کو ازبک-قازقستانی نشاندہی کمیشن نے گلستان، ازبکستان میں اجلاس منعقد کیا۔ تمام امور حل کر لیے گئے۔“
طویل عرصے سے برقرار سرحدی تنازع کو حل کر لینے سے دونوں ممالک مشترکہ طور پر شدت پسندی کے خلاف کریک ڈاؤن کر سکیں گے، جوکہ کوتاہی سے یا ناموافق طور پر نفاذ شدہ سرحد سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ قازقستان اکتوب میں 5 جون کے دہشتگرد حملوں کے متاثرین کے سوگ میں ہے، جبکہ ازبکستان اس امر پر برہم ہے کہ ملک کے نام سے منسوم ایک دہشتگرد تنظیم – تحریکِ اسلامیٔ ازبکستان (آئی ایم یو) – افغانستان اور پاکستان میں سرگرم ہے۔
کئی برسوں کے دوران، دونوں ممالک کے صدور نے بارہا دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف اپنے مشترکہ عزم اور علاقائی سلامتی کے قیام پر زور دیا ہے۔
نقول کے مطابق، قازقستانی صدر نورسلطان نذر بائیف نے 15 اپریل کو ازبک ہم منصب اسلام کریموف کے ساتھ آستانہ اجلاس میں کہا، ”قازقستان اور ازبکستان کو بین الاقوامی میدان میں ایک دوسرے کی حمایت اور مشترکہ اقدامات کے نفاذ میں شرکت کرنی چاہیے۔ بین الاقوامی دہشتگردی اور ۔۔ شدت پسندی کے خلاف ہماری مشترکہ مخالفت دورِ حاضر کا مسئلہ ہے۔“
کریموف نے اجلاس میں کہا، ”ہماری ریاستوں کے مابین قریبی تعاون امن، سکون اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ افغانستان میں سبک رفتار استحکام اور امن ہمارے خطے اور اس کی حدود سے ماورا سلامتی اور استحکام کے لیے فیصلہ کن ہے۔“
سرحد کا مشترکہ تحفظ
دونوں ممالک کی نفاذِ قانون کی ایجنسیوں نے پہلے ہی سرحدی سلامتی میں تعاون کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔
ازبک وزارتِ داخلہ (ایم وی ڈی) کے ترجمان سامویل پیٹروسیان نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا، ”20 مئی کو ازبک نفاذِ قانون کے ایک وفد نے صوبہ جنوبی قازقستان میں اپنے قازقستانی ہم منصبوں سے ملاقات کی۔“
انہوں نے کہا، ”انہوں نے غیر قانونی ترکِ وطن، سرحد کے دونوں جانب جرائم اور شدت پسندی کے خلاف مشترکہ انسدادی اقدام پر بات چیت کی۔“
پیٹروسیان نے کہا کہ حکام نے ”ملزموں سے متعلق معلومات کے تبادلہ سے نمٹنے اور مشترکہ کاروائیاں کرنے کے لیے کام کرنے والا ایک مربوط گروہ تشکیل دیا۔ انہوں نے کام کرنے والے گروہ کی کاروائیوں سے متعلق دستاویزات پر دستخط کیے۔“