سفارتکاری

روس خطے میں غلبہ پانے کے بہانے داعش کے خطرے کو بڑھا کر بیان کر رہا ہے

از حمزہ

9 ستمبر کو بشکیک میں ایک روسی فوجی سی ایس ٹی او کی مشق میں حصہ لے رہا ہے۔ [ویاشسلاو اوسلیدیکو/اے ایف پی]

9 ستمبر کو بشکیک میں ایک روسی فوجی سی ایس ٹی او کی مشق میں حصہ لے رہا ہے۔ [ویاشسلاو اوسلیدیکو/اے ایف پی]

کابل -- متعدد افغان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس دانستہ طور پر "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے خطرے کو بڑھا رہا ہے تاکہ خطے کے ممالک پر اپنا غلبہ مضبوط کر سکے۔

افغانستان کے تین ہمسایہ ممالک، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان، سابق سوویت جمہوریہ ہیں جو اب بھی ماسکو کے زیرِ اثر ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں کریملن کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آزادی کی طرف اس اقدام نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے اتحادیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی کس طرح سے ملکوں کو دوبارہ نرغے میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

15 اکتوبر کو پیوٹن نے دولتِ مشترکہ کی آزاد ریاستوں (سی آئی ایس) کے مجازی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روسی خفیہ اداروں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ داعش کے تقریباً 2،000 جنگجو شمالی افغانستان میں جمع ہو رہے ہیں، اور وہ "براہِ راست توسیع" کے ذریعے قریبی ممالک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، اور اُن طالبان رہنماؤں کو ناراض کر رہے ہیں جو یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال ان کے قابو میں ہے.

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن 13 اکتوبر کو ماسکو میں رشیئن انرجی ویک انٹرنیشنل فورم کے اجلاس میں شریک ہیں۔ [میخائل میٹزل/پول/اے ایف پی]

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن 13 اکتوبر کو ماسکو میں رشیئن انرجی ویک انٹرنیشنل فورم کے اجلاس میں شریک ہیں۔ [میخائل میٹزل/پول/اے ایف پی]

پیوٹن نے کہا، "اس سلسلے میں، یہ ضروری ہے کہ افغان سرحد کی صورتحال پر مسلسل نظر رکھی جائے اور عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہا جائے، اور اسی کے مطابق، دفاعی قوتوں کے کام میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی جائے -- اگر ضرورت ہو تو مشترکہ خصوصی کارروائیاں کی جائیں۔"

کابل کے مقامی بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار، لطیف نظری نے کہا کہ کسی اور خفیہ ادارے نے اس طرح کی مرتکز موجودگی کا نہیں بتایا ہے، اور افغانستان کی شمالی سرحد پر داعش کی قربت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے، روس پورے خطے کے ممالک پر اپنا سیاسی اور دفاعی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ان سب کو اپنے قابو میں کر سکے۔

نظری نے کہا کہ داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کو خودمختاری کے لیے خطرہ قرار دینے کا ایک مقصد ہے: روسی وسطی ایشیائی باشندوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ روس کی حمایت کے بغیر انہیں سلامتی کی بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ثبوت کے طور پر تاجکستان میں حالیہ مشترکہ فوجی مشقوں کا حوالہ دیتے ہوئے، نظری نے کہا کہ روس افغانستان سے امریکی انخلاء سے خطے میں اپنی بالادستی کو بڑھانے کے موقع کے طور پر فائدہ اٹھا رہا ہے۔

روسی-غلبے کی حامل اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم (سی ایس ٹی او) نے گزشتہ ہفتے (23 اکتوبر) کے روز تاجکستان میں چھ روزہ مشقوں کا اختتام کیا۔ روسی اور تاجک حکومتوں کے مطابق، 5,000 سے زیادہ فوجیوں نے حصہ لیا۔

سی ایس ٹی او کے ارکان میں آرمینیا، بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، روس اور تاجکستان شامل ہیں۔

روس کے لیے سیاسی آلہ

کابل کے مقامی روسی امور کے تجزیہ کار، عبدالشکور سالنگی نے سلام ٹائمز کو بتایا، "روسی افغانستان میں داعش کی موجودگی کا جھوٹا حوالہ دے کر دو مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔ پہلا، وہ چاہتے ہیں کہ وسط ایشیائی ممالک ان پر مزید انحصار کریں ... اور ان ممالک کے پاس عسکری طور پر روس کی حمایت پر انحصار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو۔"

ان کا کہنا تھا کہ روس کی تاجکستان میں پہلے ہی ایک بڑی عسکری موجودگی ہے اور سی ایس ٹی او کے رکن ممالک کو شامل کرنے کے لیے وسطی ایشیا سے باہر اپنا اثر و رسوخ وسیع کرنا چاہتا ہے۔

سی ایس ٹی او کے چھ رکن ممالک میں سے صرف ایک تاجکستان کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔

سی ایس ٹی او کا حوالہ دیتے ہوئے سالنگی نے مزید کہا، "روسی خطے میں اپنا سیاسی اور فوجی اثر و رسوخ مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ... اور وسیع تر خطے کے تمام ممالک کو اپنی چھتری تلے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

کابل میں ایک عسکری تجزیہ کار، مقدم امین نے کہا کہ کریملن علاقائی ممالک کو قائل کرنا چاہتا ہے کہ داعش نے مشرقِ وسطیٰ سے افغانستان پر حملہ کیا ہے اور وہ دریائے آمو دریا پر تمام ممالک کے لیے خطرہ بنے گی۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ روس کے تعلقات متنازعہ اور غیر متوقع ہیں۔

امین نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں، افغانوں نے دیکھا کہ روسی طالبان کے اقتدار سنبھالنے کا خیر مقدم کرنے اور علاقائی ممالک کے لیے ان کے ممکنہ خطرے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے درمیان اپنا مؤقف بدلتے رہے ہیں۔

طالبان اور ماسکو کے درمیان عدم اعتماد

کابل میں کردن یونیورسٹی کے سیاسی سائنسدان، فہیم چکری، جو اب عارضی طور پر ترکی میں ہیں، نے سلام ٹائمز کو بتایا، "شمالی افغانستان، جہاں ملک کی سرحدیں وسط ایشیائی ممالک سے ملتی ہیں، میں داعش کے 2,000 عسکریت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں روسی صدر کے حالیہ بیانات اور طالبان کے ترجمانوں کی طرف سے ان بیانات کی تردید، روسیوں اور طالبان کے درمیان عدم اعتماد کا واضح اشارہ ہے۔"

چکری نے کہا کہ پڑوسی ملک تاجکستان میں سی ایس ٹی او مشق، علاوہ ازیں ماسکو میں ہونے والے ایک حالیہ اجلاس، جس میں طالبان نے بھی شرکت کی تھی، کے دوران روس اور تاجکستان کا طالبان کو ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ماسکو اور طالبان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔

کینیڈا میں مقیم ایک افغان سیاسی تجزیہ کار ولی فوروزان نے کہا، "کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجیوں کے انخلاء سے دہشت گرد گروہوں کو اس ملک کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کا موقع ملا ہے، اور روسی اس بارے میں یقیناً فکرمند ہیں۔"

تاہم، ان کا مزید کہنا تھا کہ تاجکستان میں حالیہ سی ایس ٹی او مشق، افغانستان کے شمالی علاقوں میں داعش کی موجودگی کے بارے میں پیوٹن کا خوفزدہ کرنا اور طالبان کا یہ بیان کہ داعش کوئی خطرہ نہیں ہے، اس کی کئی طریقوں سے تشریح کی جا سکتی ہے، خصوصاً جب یہ طالبان اور روس کے درمیان تعلقات کی وضاحت کرنے کی بات ہو۔

فوروزان نے کہا کہ یہ واقعات طالبان کے عدم اطمینان اور طالبان اور ماسکو کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی ناقابلِ تردید نشانیاں ہیں۔

کابل کے صحافی مصطفیٰ بگزاد نے کہا، "اگرچہ روس اور طالبان اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن طالبان اور روس کے ساتھ ساتھ طالبان اور کئی وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان مفادات کے تصادم اور عدم اعتماد کے بارے میں سنگین مسائل ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ہم حالیہ مؤقف میں تضادات دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، طالبان نے، پیوٹن کے برعکس، شمالی افغانستان میں داعش کی موجودگی کی تردید کی، اور تاجکستان کے ساتھ روسی عسکری مشقوں کے بعد، طالبان نے سرحدی علاقوں میں اپنی خصوصی افواج کو تعینات کر دیا ہے۔"

بگزاد نے کہا، "طالبان کے نائب وزیر اعظم، ملا عبدالغنی برادر نے تاجک صدر کو خبردار کیا ہے کہ وہ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کریں، اور یہ کہا ہے کہ اگر تاجکستان مداخلت کرتا ہے تو اسے طالبان کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500