کابل -- ہر روز صبح سویرے، مہاجرہ امان اللہ جما دینے والی سردی میں کابل کی ایک معمولی سی بیکری میں گرم نان روٹی تقسیم ہونے کا انتظار کرنے کے لیے دوڑ جاتی ہے۔
کچھ دنوں کے لیے، اس کا سارا خاندان، اور قطار میں کھڑے دوسرے لوگ، دن میں بس یہی نان کھائیں گے۔
منگل (18 جنوری) کو اس دو بچوں کی ماں نے اے ایف پی کو بتایا، "اگر میں یہاں سے روٹی نہیں لاؤں گی تو ہم بھوکے سوئیں گے۔"
"حتیٰ کہ مجھے اپنی بیٹیوں کو بیچنے کا خیال بھی آیا، لیکن میں نے پیچھے ہٹ کر صرف خدا پر بھروسہ کیا۔"
![18 جنوری کو کابل میں ایک بیکری کے سامنے افغانوں کو بھوک سے بچاؤ مہم کے ایک جزو کے طور پر تقسیم ہوتی ہوئی مفت روٹی لینے کے لیے کھڑے لوگ۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]](/cnmi_pf/images/2022/01/26/33740-000_9we472-585_329.jpg)
18 جنوری کو کابل میں ایک بیکری کے سامنے افغانوں کو بھوک سے بچاؤ مہم کے ایک جزو کے طور پر تقسیم ہوتی ہوئی مفت روٹی لینے کے لیے کھڑے لوگ۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]
غربت اور بھوک مایوس افغانوں کو اپنی بیٹیوں کو فروخت کرنے کا خوفناک انتخاب کرنے پر مجبور کر رہی ہے، جن کے تعلیم اور آزادی کے خواب اگست کے وسط میں حکومت کے خاتمے کے بعد دھندلا گئے ہیں۔
افغانستان ایک انسانی المیئے کی لپیٹ میں ہے، اور 11 جنوری کو اقوام متحدہ (یو این) نے کہا کہ اسے 2022 میں وقوع پذیر ہونے والے انسانی المیئے کو روکنے کے لیے 5 بلین ڈالر کی امداد کی ضرورت ہے۔
اُسی روز، امریکی حکومت نے اس سال افغانستان کے لیے ابتدائی امدادی پیکج میں 308 ملین ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا۔ اکتوبر سے لے کر اب تک افغانوں کے لیے امریکی انسانی امداد تقریباً 782 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ 23 ملین افراد – ملک کی نصف سے زیادہ آبادی – کو خوراک کی کمی کا خطرہ ہے۔
ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں، اور بہت سے سرکاری ملازمین کو ملک میں مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی، جو گزشتہ حکومت کے دوران تقریباً مکمل طور پر غیر ملکی عطیات پر منحصر تھی۔
واشنگٹن نے ملک کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں، جبکہ امدادی رسد میں بہت زیادہ خلل پڑا ہے۔
افغانستان کو 2021 میں دہائیوں کی بدترین خشک سالی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
افغانوں کو بھوک سے بچاؤ
گزشتہ ہفتے کے روز روٹی کی تقسیم کا آغاز کابل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے زیرِ اہتمام افغانوں کو بھوک سے بچاؤ مہم کا حصہ ہے۔
مہم کے عطیئے کے صفحے کے مطابق، دارالحکومت کے سات اضلاع میں کم از کم 75 خاندانوں، جو اس وقت برف میں لپٹے ہوئے ہیں، کو ایک ماہ تک روزانہ 10 نان ملیں گے۔
صفحے پر کہا گیا ہے کہ "روٹی کی قیمت 9 افغانی ہے لہذا ہر روز 75 خاندانوں کو کھانا کھلانے کے لیے ہماری 64 ڈالر لاگت آئے گی"۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مہم اگلے ہفتے والے دن سے 200 خاندانوں تک پھیل جائے گی۔
قطار میں، نوریہ پانچ دیگر خواتین کے ساتھ کھڑی ہیں، سبھی نے نیلے رنگ کے برقعے پہن رکھے ہیں جسے طالبان ملک میں خواتین کو پہننے کی ترغیب دیتے ہیں۔
اپنے شوہر کی موت کے بعد، اسے دوستوں سے عطیات ملے تھے، لیکن وہ ختم ہو گئے۔
پانچ بچوں کی ماں، نوریہ نے کہا، "ہم چاول یا گاجر اور شلجم سے بنا سوپ کھاتے ہیں... اور اس میں گوشت کی بجائے روٹی کے ٹکڑے ڈالتے ہیں۔"
جب مرد اور خواتیں اپنے حصے کی روٹی کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، بچے کھیلتے رہتے ہیں، کچھ اپنے ناپ سے بڑے پھٹے ہوئے جوتے پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔
جب آخری شخص قطار سے باہر نکلا تو بیکری کے مالک مکرم الدین نے کہا، "لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں، اور اب ان کا کوئی ذریعۂ آمدن نہیں ہے۔ ہم ایک دن میں چار بوری آٹا استعمال کرتے تھے؛ اب صرف ڈیڑھ بوری استعمال کرتے ہیں۔"