ہرات -- رمضان میں 12ویں روزے کو دوپہر کا 1 بجا تھا اور 12 سالہ نادر شاہ ابھی ابھی سکول سے واپس لوٹا تھا۔
ابھی اس نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا اور صوبہ ہرات کے ضلع شنداند میں اپنے گھر کے قریب کھیل رہا تھا، جب طالبان کا پھینکا ہوا ایک مارٹر گولا اس کو آن لگا۔
اس کے والد، جنت گل، فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچے اور اپنے بیٹے کو دیکھا، جو بیہوش تھا اور سارا جسم خون میں لت پت تھا۔
مارٹر نے شاہ کی ایک ٹانگ اڑا دی تھی اور دوسری ٹانگ سمیت، پورے جسم کو زخمی کر دیا تھا۔
گُل فوری طور پر اپنے بیٹے کو لے کر بھاگم بھاگ ضلع شنداند سے تقریباً 130 کلومیٹر دور، ہرات شہر میں ہرات کے علاقائی ہستال میں پہنچا۔
ہسپتال میں تقریباً 40 روز گزارنے کے بعد، نادر ابھی تک صدمے اور سخت تکلیف میں ہے۔
ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کے زخم بہت گہرے ہیں اور اسے اپنے اپاہج ہونے کے جسمانی اور نفسیاتی اثر سے باہر آنے میں وقت لگے گا۔
گل، جو دن رات ہسپتال میں اپنے لختِ جگر کی تکلیف کا شاہد ہے، نے کہا کہ اسے اب اور رونا بھی نہیں آتا اور یہ کہ وہ بے گناہ افغانوں کو ہلاک کرنے اور ملک میں تباہی کا سبب بننے کے لیے طالبان کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔
انہوں نے کہا، "میری حکومت سے درخواست ہے کہ طالبان کا خاتمہ کرے اور انتہاپسندی کی بیخ کنی کرے تاکہ مزید افغانوں کو ان کی دہشت گردی کی کارروائیوں سے تکلیف نہ پہنچے۔"
انہوں نے کہا کہ طالبان اپنے جھوٹے "جہاد" کے نام پر روزانہ عام شہریوں کو مار رہے ہیں اور افغانستان کو تباہ کر رہے ہیں،" ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی جنگ کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا، "میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ طالبان کو نیست و نابود کر دے کیونکہ اس دہشت گرد گروہ نے افغانستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔"
متاثرینِ جنگ
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) کے مطابق، جنگ سے معذور ہونے والے افغانوں کی تعداد میں سنہ 2021 کے پہلے چار ماہ میں، سنہ 2020 کے پہلے چار ماہ کے مقابلے میں 50 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔
مرکز کے ڈائریکٹر، سید عمید شاہیان نے کہا کہ صوبہ ہرات میں آئی سی آر سی کے آرتھوپیڈک مرکز نے سال کے پہلے چار ماہ کے دوران، دھماکوں سے معذور ہونے والے 64 مریضوں -- بشمول آٹھ بچے اور تین خواتین -- کو داخل کیا۔
انہوں نے کہا کہ داخل ہونے والے سڑک کنارے نصب بارودی سرنگوں، مارٹر گولوں یا دیگر دیسی ساختہ بموں (آئی ای ڈیز) سے زخمی ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگ کے یہ متاثرین ایک یا زیادہ اعضاء سے محروم ہو جانے کی وجہ سے اپنی باقی ماندہ پوری زندگی معذور رہیں گے۔
28 سالہ، نور گل، ایک ٹرک ڈرائیور تھا پھر ہرات سے کابل کے سفر میں سڑک کنارے نصب بارودی سرنگ پھٹنے سے وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گیا۔
ہرات کا علاقائی ہسپتال 25 اپریل کو دھماکے کے بعد سے اس کا علاج کرتا رہا ہے۔
گل نے اپنی زندگی برباد ہونے کا الزام طالبان پر لگایا ہے۔
انہوں نے کہا، "میں اپنے تین بچوں، بیوی اور بزرگ والدین پر مشتمل خاندان کا واحد کمانے والا تھا۔ میرا دل ٹوٹ گیا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ آگے کی زندگی کو کیسے چلانا ہے۔"
اس نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنے حملے روک دیں اور بے گناہ عام شہریوں کو مارنا بند کریں۔
اس کا کہنا تھا، "طالبان پر لازم ہے کہ امن کو اپنائیں اور عام شہریوں کو قتل کرنا اور افغانستان کو تباہ کرنا بند کریں۔"
خالد، جس نے اپنے نام کا صرف پہلا حصہ ہی بتایا، اپنے رہائشی ضلع فارسی میں ایک مرکز میں 3 مئی کو طالبان کے ایک کار بم دھماکے میں ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا اور دوسری پر شدید چوٹیں لگیں۔
اس نے کہا، "طالبان جنگجو ہمارے گاؤں میں اور اس کے اردگرد بہت متحرک ہیں،" اس کا مزید کہنا تھا کہ مکینوں کو ضلعی مرکز آنے جانے میں بہت سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور رات کے وقت طالبان کی کارروائیوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
اس نے ایک حالیہ واقعہ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان اس کے ایک رشتے دار کے گھر گئے اور پھر انہیں گھر سے باہر نکال کر قتل کر دیا۔
اس نے کہا کہ تمام افغان امن کے منتظر ہیں کیونکہ دیرپا امن ہی افغانستان میں خوشحالی لائے گا۔
انسانیت کے خلاف جرائم
علمائے دین نے طالبان کے خودکش بم دھماکوں اور پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کی ہے، جو عام شہریوں کو مارنا اور بہت سوں کو معذور بنانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہرات شہر میں ایک عالمِ دین، مولانا عبدالغفار اکبری نے کہا کہ طالبان کی بغاوت اور تنظیم کا دانستہ طور پر عام شہریوں کو نشانہ بنانا انسانیت کے خلاف جرائم ہیں اور اسلام میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، "چونکہ طالبان اسلامی اصولوں سے ناواقف ہیں، وہ مسلمان افغانوں کو مارنا اور اپنی بلاجواز جنگ چھیڑنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
اکبری نے کہا کہ شاہراہوں کے کنارے سرنگیں نصب کرنا، جو موت اور معذوری کا سبب بنتی ہیں، اسلامی اقدار کی خلاف ورزی ہے اور اس لیے سختی سے منع ہے۔
ان کا کہنا تھا، "بے گناہ مسلمان کو قتل کرنا گناہِ کبیرہ ہے، اور اس کا ارتکاب کرنے والا دائمی جہنمی ہے۔"
ہرات شہر میں سول سوسائٹی کے ایک کارکن، نور محمد پزمان نے کہا کہ جنگ کے دوران عام شہریوں کو نشانہ بنانا اور عوامی سڑکوں پر بارودی سرنگیں نصب کرنا جنگی جرائم تصور کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، "طالبان کی سرنگوں کے بیشتر متاثرین عام شہری ہیں۔ متحارب فریقین کو چاہیئے کہ عام شہریوں کو مت دھمکائیں کیونکہ [عام شہریوں کا] جاری جنگ میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔"
انہوں نے کہا، "طالبان نے کبھی بھی عالمی طور پر قبول کردہ جنگی اصولوں کی پابندی نہیں کی، جو کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں پر منتج ہوئی ہے۔"
پزمان نے کہا کہ بہت سی صورتوں میں، "طالبان عام شہریوں کو انسانی ڈھالوں کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں،" ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ عمل جنگی جرم ہے اور اس لیے طالبان "پر بین الاقوامی عدالتی اداروں میں مقدمہ چلنا چاہیئے۔"