سلامتی

افغان حکام کا کہنا ہے کہ ایران طالبان کو 'جدید' ہتھیار فراہم کر رہا ہے

از علی

طالبان کی جانب سے سڑک کنارے نصب کردہ بم سے تباہ شدہ افغان حکومت کی ایک فوجی جیپ کی 17 فروری کو ہرات تا اسلام قلعہ ہائی وے پر لی گئی تصویر۔ [علی/سلام ٹائمز]

طالبان کی جانب سے سڑک کنارے نصب کردہ بم سے تباہ شدہ افغان حکومت کی ایک فوجی جیپ کی 17 فروری کو ہرات تا اسلام قلعہ ہائی وے پر لی گئی تصویر۔ [علی/سلام ٹائمز]

کابل -- عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت طالبان کو جدید ہتھیار -- بشمول رات کے وقت دیکھنے کے آلات، مہلک بم اور بھاری اسلحہ -- فراہم کرتی رہی ہے۔

کئی عسکری اہلکاروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گزشتہ ماہ کی خفیہ اطلاعات اور دفاعی رپورٹوں کا تبادلہ کیا جن کا کہنا ہے کہ ایران کی سپاہِ پاسداران اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) کے ارکان افغانستان کے مغربی علاقے میں طالبان کی قیادت کرتے رہے ہیں.

دفاعی رپورٹوں میں سے ایک رپورٹ کے مطابق، ایک طالبان کمانڈر، مولوی محمد انوار جو بظاہر آئی آر جی سی کی قدس فورس (آئی آر جی سی-کیو ایف) کی ہدایات کے تحت کام کرتے ہیں، نے 30 اپریل کو صوبہ فرح کے ضلع بالا بولوک میں ایران سے تین زہریلی گیس کے غبارے والے بم اسمگل کیے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان نے ضلع میں ایک فوجی عمارت پر ایک حملے کے پیش خیمے کے طور پر غبارہ بموں کے ساتھ افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کے فوجیوں کو زہر دینے کا منصوبہ تیار کیا تھا، لیکن دفاعی قوتوں نے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔

13 مارچ کو ہرات میں طالبان کے کار بم دھماکے کے بعد ایک شخص ملبے کا ڈھیر بنے اپنے گھر کو دیکھتے ہوئے۔ [علی/سلام ٹائمز]

13 مارچ کو ہرات میں طالبان کے کار بم دھماکے کے بعد ایک شخص ملبے کا ڈھیر بنے اپنے گھر کو دیکھتے ہوئے۔ [علی/سلام ٹائمز]

مئی میں ایک اور رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 30 اپریل کو، ایران کے صوبوں خراسان اور زاہدان کے مکین، آئی آر جی سی کے 25 تک کی تعداد میں ارکان صوبہ ہرات کے ضلع شنداند میں گھسے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وہ رات کے وقت دیکھنے والے آلات اور ہتھیاروں کے ساتھ آئے اور صوبہ ہرات میں طالبان کی سرخ یونٹ کے کمانڈر ملا نجیب کی حمایت میں لڑنے کے لیے ملک میں داخل ہوئے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی آر جی سی-کیو ایف نے حال ہی میں شنداند، ادرسکان، پشتِ کوہ، چشتِ شریف، اوبے، پشتون زرغون، اور غوریان اضلاع میں طالبان کے بڑے حملوں میں قیادت کی ہے، اس میں مزید کہا گیا ہے کہ آئی آر جی سی-کیو ایف کے درجنوں ارکان کو افغان سرحد کے قریب ایرانی شہر برجاند میں تعینات کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں توجہ دلائی گئی ہے کہ آئی آر جی سی طالبان کی مدد کرنے کے لیے ہرات اور فرح صوبوں میں داخل ہونے کی مرتکب ہوئی ہے۔

ایرانی بارودی مواد

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صوبہ ہرات میں ایک سینیئر سرکاری اہلکار نے کہا کہ طالبان ایران سے صوبہ ہرات میں بارودی مواد سے لدی گاڑیاں بھی درآمد کر رہے ہیں۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں، طالبان نے ایران کے ساتھ ملحقہ کئی اضلاع میں دفاعی قوتوں کو نشانہ بنانے کے لیے کئی کار بم دھماکے کیے ہیں، بشمول کوہسان، گلران، غوریان اور زندہجان۔

ہرات میں طالبان کی جانب سے استعمال کردہ بیشتر بارودی مواد ایران سے آیا ہے، کا اضافہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، "یہ بم سرحد کی دوسری جانب ایران میں تیار ہوئے تھے۔"

خفیہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے، وولیسی جرگی میں صوبہ ہرات کی نمائندگی کرنے والے ایک رکن، عبدالستار حسینی نے کہا کہ رمضان کے مہینے کے دوران دیہانا ذوالفقار اورابچرمی کے علاقوں کے راستے ایران سے 2،000 سے زائد اقسام کے ہتھیار صوبہ ہرات میں سمگل ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان ہتھیاروں میں سے کچھ ہتھیار صوبہ ہرات میں طالبان عسکریت پسندوں کو چلے گئے اور باقی فرح، بدغیث، فریاب اور باغلان صوبوں میں پہنچ گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہتھیار انتہائی جدید ہیں اور مشہد، ایران میں ایک فیکٹری سے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا، "مشہور و معروف طالبان کمانڈروں، بشمول مُلا حیدر، مُلا داؤد اور مُلا نور احمد شہاب، کو مغربی علاقے میں ایرانی حکومت کی جانب سے حمایت ملتی رہی ہے۔"

"ایرانی حکومت طالبان کو بارودی مواد لے جانے والے چھوٹے ڈرون فراہم کرنا بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔"

حسینی کے مطابق، آئی آر جی سی-کیو ایف نے طالبان کو راکٹ فراہم کیے تھے جو انہوں نے فرح میں دفاعی قوتوں پر حملے میں استعمال کیے تھے، جس میں ضلع بالا بولوک میں ایک فوجی چھاؤنی بھی شامل ہے۔

حسینی کا کہنا تھا کہ طالبان کو راکٹ اور بارودی مواد فراہم کرنے میں، ایرانی حکومت کا مقصد کمال خان اور سلمیٰ ڈیم کو نشانہ بنانا اور ہرات میں پشدان ڈیم اور فرح میں بخش آباد ڈیم کی تعمیر میں خلل ڈالنا ہے۔

آئی آر جی سی کا عدم استحکام

مبصرین اور عوام نے تصدیق کی ہے کہ آئی آر جی سی مغربی علاقے میں ایرانی حکومت کے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے طالبان کو پیسہ اور ہتھیار فراہم کرتی رہی ہے۔

فرح کی صوبائی کونسل کے چیئرمین داداللہ قانی نے کہا کہ طالبان کو افغانستان کے مغربی علاقے میں ایرانی حکومت سے معاونت ملتی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ مغربی علاقے کے بیشتر طالبان کمانڈروں کے ایران میں گھر ہیں۔

قانی کا کہنا تھا، "ایرانی کی آئی آر جی سی کا مغربی علاقے میں اگلے مورچہ پر ایک فعال کردار ہے اور اس نے طالبان کو فوجی سازوسامان فراہم کیا ہے۔ واضح ثبوت موجود ہے کہ بہت سے طالبان کمانڈر ایرانی حکومت سے پیسہ اور ہتھیار وصول کرتے رہے ہیں۔"

صوبہ غور کے دارالحکومت، فیروز کوہ میں سول سوسائٹی کے ایک کارکن، حسن حکیمی نے کہا کہ ایرانی مداخلت نے افغان سلامتی اور استحکام، خصوصاً مغربی علاقے میں، کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، "ایرانی حکومت طالبان دہشت گرد تنظیم کے اندر اپنے مطلب کے اتحادوں کو برقرار رکھنا اور بھرپور معاونت فراہم کرنا جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ یہ اپنے سیاسی، معاشی اور خفیہ اہداف حاصل کر سکے۔"

حکیمی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے لیے ایرانی حکومت کی پالیسی ہمیشہ سے منافقانہ رہی ہے۔

انہوں نے کہا، "ایرانی حکومت خود کو افغانستان کا دوست کہتی رہی ہے، جبکہ اس نے طالبان کی جنگی مشین کی مسلسل حمایت کی ہے، تاکہ وہ ہر روز سینکڑوں بے گناہ افغانوں کو ہلاک کرنے کے قابل ہوں۔"

حکیمی نے کہا کہ پورے مغربی علاقے میں طالبان کی جانب سے انجام دیئے گئے تمام خودکش حملوں، خونریز بم دھماکوں اور کار بم دھماکوں میں آئی آر جی سی کا ایک فعال کردار ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500