سلامتی

باجوڑ میں داعش کمانڈرز کے قتل سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے منصوبے منتشر

پاکستان فارورڈ

16 ستمبر 2020 کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک سرحدی گزرگاہ بدینی ٹریڈ ٹرمینل، جس کا حال ہی میں افتتاح ہوا کے قریب پاکستانی فرنٹیئر کور کا سیکیورٹی عملہ ایک مسلح گاڑی پر کھڑا ہے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

16 ستمبر 2020 کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک سرحدی گزرگاہ بدینی ٹریڈ ٹرمینل، جس کا حال ہی میں افتتاح ہوا کے قریب پاکستانی فرنٹیئر کور کا سیکیورٹی عملہ ایک مسلح گاڑی پر کھڑا ہے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

پشاور – سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ضلع باجوڑ، خیبر پختونخوا (کے پی) میں "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے تین کلیدی کمانداروں کا قتل خطے میں اس دہشتگرد گروہ کی کاروائیوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔

23 نومبر کو پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے انٹیلی جنس پر مبنی ایک کاروائی میں دو داعش کماندار ہلاک ہوئے، جبکہ چند ہی روز قبل 19 نومبر کو ایک اور کلیدی داعش کماندار ہلاک ہوا۔

اسلام آباد اساسی سینیئر صحافی حسن خان نے کہا، "یہ داعش کے لیے ایک قوی پیغام ہے کہ افواجِ پاکستان علاقائی سلامتی سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ کسی کو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔"

انہوں نے کہا کہ صوبہ ننگرہار اور افغانستان کے دیگر حصّوں میں داعش کی بڑی پسپائیوںکے بعد گزشتہ برس اس گروہ کے پسماندگان افغانستان میں شہروں پر حملے کرنے اور دہشتگردانہ کاروائیاں کرنے کے لیے پاکستان آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بنا تاریخ کی ایک تصویر میں حال ہی میں پاکستان میں قتل ہونے والے تین داعش رہنماؤں میں سے ایک عزیز الرّحمٰن المعروف فدا حسین دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

بنا تاریخ کی ایک تصویر میں حال ہی میں پاکستان میں قتل ہونے والے تین داعش رہنماؤں میں سے ایک عزیز الرّحمٰن المعروف فدا حسین دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

خان نے کہا، "لیکن پاکستانی سیکیورٹی فورسز ایسے حملوں کی انسداد کے لیے چوکس ہیں۔"

انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق، داعش لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔

چوٹی کے کماندار مارے گئے

ایک پاکستانی سیکیورٹی عہدیدار نے اپنی شناخت خفیہ رکھے جانے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا، "23 نومبر کو پاکستان کے لیے داعش کے انتظامی کماندار کے ساتھ ساتھ کراچی اور باجوڑ میں اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والوں کا خاتمہ کر کےسیکیورٹی فورسز نے اس دہشتگرد گروہ داعش کو ایک بڑا دھچکہ پہنچایا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے پاکستان کے لیے داعش کے انتظامی کماندار زبیر کو باجوڑ کے قبائلی ضلع کے علاقہ تانگی میں تلاش کر کے کراچی کے کماندار عزیز الرّحمٰن المعروف فدا کے ہمراہ قتل کیا۔

انہوں نے کہا کہ زبیر "ولی" یا پاکستان کے لیے داعش کا متوازی گورنر تھا۔ وہ عسکریت پسند رہنما داؤد محسود کا دستِ راست تھا جو کہ تا حال مفرور ہے۔

کراچی کے لیے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ محسودنے 2017 میں مبینہ طور پر اپنی وفاداریاں داعش کی جانب منتقل کر لیں۔

اس عہدیدار نے کہا، "فدا کی بیوی خدیجہ، جو [داعش] کی خواتین شاخ کی سربراہ تھی، گرفتار ہو گئی اور اب زیرِ حراست ہے۔ فدا اور خدیجہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے انہیں پکڑنے کے لیے متعدد چھاپوں سے بچ نکلے اور پکڑے جانے سے بچنے [کی ایک کوشش میں] فرار ہو کر باجوڑ چلے گئے۔"

اس عہدیدار نے کہا کہ زبیر متعدد دہشتگردانہ حملوں کے لیے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو مطلوب تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات (IEDs)، بارودی سرنگیں اور دیگر اسلحہ بازیاب کیا۔

اس عہدیدار نے مزید کہا کہ ایک اہلکار زخمی ہوا۔

اس عہدیدار نے کہا کہ پاک فوج اور فرنٹیئر کور نارتھ ٹروپس نے 19 نومبر کو باجوڑ میں منڈل یونٹ کے داعش کماندار خلیل المعروف یاسین کو قتل کیا۔

یاسین مبینہ طور پر حکومت موافق قبائلی عمائدین کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں سے ان کے علاقوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی امن کمیٹیوں کے ارکان کو ہدف بنانے کے لیے بارودی سرنگیں بچھانے میں ملوث تھا۔

ضلع باجوڑ کے علاقہ نواگئی میں ایک حکومت موافق قبائلی عمائد ملک ظہیر نے کہا، "[پاکستانی] سیکیورٹی فورسز نے شاندار کام کیا ہے کیوں کہ یہ شدت پسند امن کے دشمن ہیں اور اب شہری ان کمانداروں کے قتل کے بعد چین کا سانس لیں گے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500