تجزیہ

داعش پاکستان میں پاؤں جمانے میں کیوں ناکام رہی

پاکستان فارورڈ

پاکستانی طلباء اسلام آباد میں 20 نومبر 2014 کو ایک ریلی میں احتجاج کر رہے ہیں۔ پاکستان کی متنوع آبادی نے طویل عرصے سے گروہ کی طرف سے کی جانے والی اسلام کی سخت تشریح کو مسترد کیا ہے۔ [فاروق نعیم/ اے ایف پی]

پاکستانی طلباء اسلام آباد میں 20 نومبر 2014 کو ایک ریلی میں احتجاج کر رہے ہیں۔ پاکستان کی متنوع آبادی نے طویل عرصے سے گروہ کی طرف سے کی جانے والی اسلام کی سخت تشریح کو مسترد کیا ہے۔ [فاروق نعیم/ اے ایف پی]

جب "دولتِ اسلامیہ" (داعش) نے 2014 میں مشرقِ وسطی میں اپنی تھوڑا عرصہ زندہ رہنے والی، نام نہاد "خلافت" قائم کی اور اس کا اثر و رسوخ پوری مسلمان دنیا تک پھیلانے کی کوشش کی تو بہت سے مشاہدین کو خطرہ محسوس ہوا کہ یہ دہشت گرد گروہ پاکستان میں زرخیر زمین کو ڈھونڈ لے گا۔

تاہم، ملک کی پیچیدہ تاریخ اور ملک میں انتہاپسند گروہوں کے نیٹ ورکس کے باوجود یہ خطرات کئی وجوہات کی بنیاد پر کبھی بھی عملی شکل اختیار نہ کر پائے۔

تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گروہ نے اس بارے میں سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

کئی سالوں کے دورانیے میں، داعش سے تعلق رکھنے والے یا اس سے متاثر ہونےوالے عسکریت پسندوں نے پاکستان میں سفاکانہ حملوں کا ایک سلسلہ انجام دیا ہے جس کا نشانہ اقلیتی گروہ، سیکورٹی فورسز اور دوسرے تھے۔

سہون، صوبہ سندھ میں 13ویں صدری کے صوفی بزرگ لال شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد، ایک پاکستانی پولیس اہلکار 17 فروری، 2017 کو پشاور میں رحمان بابا کے مزار پر چوکس کھڑا ہے۔ داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ [عبدل مجید /اے ایف پی]

سہون، صوبہ سندھ میں 13ویں صدری کے صوفی بزرگ لال شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد، ایک پاکستانی پولیس اہلکار 17 فروری، 2017 کو پشاور میں رحمان بابا کے مزار پر چوکس کھڑا ہے۔ داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ [عبدل مجید /اے ایف پی]

ان مظالم میں 40 سے زیادہ شیعہ مسلمانوں کا مئی 2015 میں صفورہ گوٹھ میں قتلِ عام اور اکتوبر 2016 میں کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر حملہ شامل ہے جس میں 60 سے زیادہ کیڈٹ ہلاک ہو گئے تھے۔

داعش نے فروری 2017 میںصوبہ سندھ میں سہون میں صوفی مزار پر ہونے والے ایک خودکش حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جس میں کم از کم 90 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اگرچہ ایسے مشہور دہشت گردانہ حملے شہ سرخیوں میں آئے اور انہیں نے پاکستانی عوام میں ایک حد تک خوف بھی پیدا کر دیا مگر انہوں نے ملک کی سیکورٹی فورسز کی طرف سے ایک تیز اور پرزور ردِعمل جگا کر ملک میں داعش کی پیش رفت کو نقصان پہنچا دیا۔

سیکورٹی آپریشنز

پاکستانی حکام کو، ساری مسلمان دنیا میں اپنے ہم منصبوں کی طرح، داعش کی طرف سے اسلام کی انتہائی سخت تشریح اور خصوصی طور پر گروہ کی طرف سے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں سفاکانہ سزاؤں اور پھانسیوں سے دھچکا لگا تھا۔

پاکستان کے لیے، ان خدشات میں مزید اضافہ اس لیے بھی ہوا کہ شروع میں، داعش کی خراسان شاخ (داعش-کے) کی قیادت اور اس کے پیروکار تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں پر مشتمل تھے جنہوں نے داعش کے راہنما ابوبکر البغدادی کی بیعت کی تھی۔

ٹی ٹی پی، جو کہپاکستانی حکومت کی حلفیہ دشمن ہے، نے ملک بھر میں ایک خونی دہشت گردانہ مہم چلائی جس میں ہزاروں عام شہری اور سیکورٹی کے اہلکار ہلاک ہو گئے۔

یہ خیال کہ ٹی ٹی پی کے حصے انتہائی پرجوش اور بھرپور مالی اعانت رکھنے والے بین الاقوامی دہشت گرد گروہ کے ساتھ مل جائیں گے، پاکستانی حکام کے لیے ناقابلِ قبول خطرہ تھا۔ آخرکار، ملک کو ٹی ٹی پی کی طرف سے پھیلائے جانے والے تباہی کو روکنے کے لیے ایک دیہائی تک انتہائی سخت لڑی جانے والی جنگوں اور پیچیدہ مہمات کو انجام دینا پڑا تھا۔

اگرچہ شروع میں پاکستانی حکام نے داعش کی طرف سے عوام کو درپیش خطرے کو کم سنگین کہا تھا، مگر بعد میں ذرائع ابلاغ کی خبروں سے ظاہر ہوا کہ ملک کے سیکورٹی کے نظام کو فوری طور پر متحرک کر دیا گیا تھا کہ وہ 2015 میں داعش کی طرف سے اپنے "خراسان" صوبہ کے اعلان کے فوری بعد ابھرنے والے خطرے کا مقابلہ کر سکیں۔

پاکستانی سیکورٹی فورسز اور ایجنسیوں نے ملک بھر میں چھاپے مارے جس کا نتیجہ ممکنہ طور پر داعش سے تعلق رکھنے والے درجنوں عسکریت پسندوں کی گرفتاری یا ہلاکت کی صورت میں نکلا۔

حکام کے مطابق، 2016 تک، داعش سے تعلق رکھنے والے 300 سے زیادہ عسکریت پسند -- جن میں غیر ملکی بھی شامل تھے -- کو سیکورٹی فورسز نے گرفتار کر لیا تھا۔

پھر، 2017 میں پاکستانی فوج نے اس وقت کی خیبر ایجنسی میں ایک بڑی مہم کا آغاز کیا تاکہ عسکریت پسندوں کو نکالا جا سکے اور افغانستان کے ساتھ سرحد کو محفوظ بنایا جا سکے۔

اس وقت سے، پاکستانی حکام نے داعش-کے اور اس سے تعلق رکھنے والے گروہوں پر مسلسل دباؤ قائم رکھا ہوا ہے اور ملک میں ان کی موجودگی اور کاروائیوں کو کافی حد تک ختم کر دیا ہے۔

ان کوششوں نے سرحد پار افغان اور اتحادی فورسز کے طرف سے کامیاب مہمات کے ایک سلسلے کے ساتھ مل کر، بلاشبہ داعش-کے کی علاقے میں کام کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچایا ہے۔

یہ ترقی حالیہ پیش رفت سے پیدا ہوئی ہے جس میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں داعش-کے کا گڑھ کا چھن جانا اور گروہ کے راہنما عاصم فاروقی کی افغان فورسز کی طرف سے گرفتاری شامل ہے۔

سول سوسائٹی نے داعش کو مسترد کر دیا

جبکہ داعش کے نظریات نے ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں انتہاپسند عناصر کی قلیل تعداد کو متاثر کیا ہو مگر گروہ کی طرف سے اسلام کی سخت تشریح -خصوصی طور پر اس کی سخت قسم کی سزاؤں اور پھانسیوں -- نے ملک کی منتوع آبادی میں انتہائی شدید بغاوت کو پیدا کیا ہے۔

داعش کے کی طرف سے صوفی مزاروں اور اقلیتی گروہوں پر حملوں سے پاکستان سول سوسائٹی کی طرف سے اجتماعی ردعمل سامنے آیا جس میں مذہبی راہنما اور سماجی سرگرم کارکن بھی شامل ہیں۔

مظاہروں اور داعش کی مذمت کرنے والے مذہبی احکامات کے علاوہ، یہ مذمت پاکستان اور افغانستان میں داعش-کے کو نشانہ بنانے والے سیکورٹی آپریشنز کی بھرپور مدد کی صورت میں سامنے آئی۔

پاکستان کی متنوع ثقافت، مذہبی اور نسلی منظر کی روشنی میں داعش کے سخت نظریات کی اجتماعی مخالفت حیران کن نہیں ہے۔ ملک میں صوفی ازم کی ایک بھرپور روایت اور تاریخ ہے اور اس کے لاکھوں پیروکار ہیں جو ہر سال ان مزاروں اور دیگر زیارت گاہوں پر جاتے ہیں۔

پاکستان میں شیعہ آبادی کی کافی قابلِ قدر تعداد بھی موجود ہے جو کہ آزادی سے لے کر اب تک ملک کی سنی اکثریت کے ساتھ زیادہ تر پرامن طریقے سے رہتی رہی ہے۔چھوٹے گروہ اور فرقے جیسے کہ اسماعیلی، بوہری اور پارسی بھی ملک بھر میں بہت اچھی طرح رہ رہے ہیں اور وہ ملک کے سماجی تانے بانے کا ایک اہم نہایت اہم حصہ ہیں۔

ان زمینی حقیقتوں اور مسلسل سیکورٹی آپریشنز کو سامنے رکھتے ہوئے، یہ بات ممکن نہیں ہے کہ داعش-کے یا اس کا مادری گروہ پاکستان میں گہری جڑیں قائم کر پائے گا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500