معاشرہ

پشاور کا قصہ خوانی بازار ماضی کے حملوں کی اذیت سے نکل آیا

جاوید خان

15 ستمبر کو تاریخی قصہ خوانی بازار کا ایک منظر۔ [جاوید خان]

15 ستمبر کو تاریخی قصہ خوانی بازار کا ایک منظر۔ [جاوید خان]

پشاور – ایک دہائی سے زائد کے مسلسل دہشتگردانہ حملوں کے بعد، تاریخی قصہ خوانی بازار میں زندگی معمول پر آ چکی ہے۔

پشاور کے مرکز میں واقع یہ بازار خطے کے بد ترین دہشتگردانہ واقعات میں سے چند کا شاہد ہے، جن سے بازار اور قریبی گلیاں ویران ہو گئیں۔

تاہم، آج تاجر اور گاہک اپنے چہروں پر مسکراہٹوں کے ساتھ لوٹ آئے ہیں۔

طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی چہل پہل کا آغاز ہو جاتا ہے جب ہزاروں افراد قہوہ پینے، فالودہ اور تلی ہوئی مچھلی کھانے اور کتابیں، کپڑے، کاسمیٹکس اور مٹھائیاں خریدنے آتے ہیں۔

15 اگست کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں گاہک خریداری کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

15 اگست کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں گاہک خریداری کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

12 ستمبر کی شام کے دوران قصہ خوانی بازار میں کاروبار جاری ہے۔ [جاوید خان]

12 ستمبر کی شام کے دوران قصہ خوانی بازار میں کاروبار جاری ہے۔ [جاوید خان]

اپنی عمر کی 30 ویں دہائی کے اواخر میں سہیل جان نے کہا، "میں روائتی چاول کھانے اور لاہوری سویٹس کی معروف مٹھائیاں خریدنے ہفتے میں دو مرتبہ قصہ خوانی بازار جاتا ہوں۔"

انہوں نے کہا کہ دکانداروں یا گاہکوں میں کوئی خوف نہیں کیوں کہ نہ صرف پشاور کے اس حصے میں بلکہ ملک بھر میں امن لوٹ آیا ہے۔

جان نے کہا کہ دہشتگردی کے بڑے واقعات اور بم حملے قصہ خوانی اور گرد و نواح کے علاقوں میں پیش آئے، جس سے سینکڑوں افراد جاںبحق اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے۔

بازار میں اور اس کے گرد خودکش حملوں میں جنوری 2007 میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ملک محمّد سعد اور ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) خان رازق سمیتمتعدد سیاستدانوں اور حکام کی زندگیاں گئیں۔

دسمبر 2012 میں قصہ خوانی بازار کے قریب ایک اور خودکش بم حملے میں خیبر پختونخوا (کے پی) کے سیاستدان بشیر احمد بلور اور سات دیگر افراد جاںبحق ہو گئے۔

بڑے اجتماعات کو ہدف بنانے والے دیگر حملے

ستمبر 2013 میں قصہ خوانی بازار کے پیچھے کوہاٹی میں آل سینٹس چرچ میں ایک دہرے خودکش حملے میں 100 سے زائد افراد جاںبحق اور دیگر 250 سے زائد زخمی ہو گئے۔

اکتوبر 2009 میں مینا بازار کے قریب ایک کاربم حملے میں 137 افراد جاںبحق اور 210 دیگر زخمی ہوگئے۔

خوف کا خاتمہ

بازار کے پیچھے ایک چھاپہ خانے کے مالک جاوید خان نے کہا، "چونکہ گزشتہ چند برسوں سے قصہ خوانی اور قریبی گلیوں میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، زندگی معمول پر لوٹ آئی ہے اور عوام اس بات پر بہت خوش ہے۔"

خان نے کہا، "ملک سعد اور بشیر بلور کا قتل، مینہ بازار دھماکہ اور قصہ خوانی سے چند گز کے فاصلے پر آل سینٹس چرچ پر حملہ بدترین سانحات میں سے چند تھے۔"

آل سینٹس چرچ کے قریب برتنوں کی ایک دکان کے مالک عبدالماجد نے کہا، "اس جگہ پر مرد و خواتین سمیت زیادہ گاہک آ رہے ہیں کیوں کہ انہیں دھماکوں کا کوئی ڈر نہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بازار شہر کا دل ہے اور ہر روز ہزاروں لوگ یہاں آتے ہیں۔

ڈی ایس پی عتیق شاہ نے کہا، "پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کی وجہ سے گزشتہ چند برسوں کے دوران پشاور کے تمام علاقوں اور باقی کے پی اورقصہ خوانی میں صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ قصہ خوانی اور اندرونِ شہر میں تمام مالز میں زندگی معمول پر لوٹ آئی ہے۔

شاہ نے کہا، "ہم نے قصہ خوانی، خیبر بازار، چوک یادگار، گھانا گھر میں فوڈ سٹریٹ، ہشتنگری اور متعدد ایسے علاقوں میں، جہاں دن بھر میں ہزاروں گاہک آتے ہیں، گشت میں اضافہ کیا ہے، کلوزڈ سرکٹ ٹیلی ویژن کیمراز نصب کیے ہیں اور سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے تمام تر اقدامات کیے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500