کھر، ضلع باجوڑ – 2008 میں دہشتگردوں کی جانب سے ان کی سرگرمیوں کے گڑھ کے طور پر استعمال ہونے پر بند ہونے والا ضلع باجوڑ کا سیوائی بازارخطے میں بحالیٴ امن کے بعددوبارہ کھل گیا ہے۔
گزشتہ نومبر میں مقامی افراد اور سیکیورٹی عہدیداران کی جانب سے اس مقام پر تعمیرِ نو کے کام کے افتتاح کے بعد حکومتِ پاکستان نے اس بازار کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دی۔
ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں نے، باجوڑ کی تحصیل ماموند میں واقع اس بازار کو تباہ کر دیا تھا۔
اب دوبارہ تیار کی گئی اس تنصیب میں چند کاروباروں کا دوبارہ آغاز ہو چکا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف سیاسی جماعت کے ایک نوجوان رہنما اور سیوائی انجمنِ تاجران کے صدر نجیب اللہ ہلال نے 24 اگست کو کہا، "تحریکِ طالبان پاکستان نے اس علاقہ کو اپنی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر استعمال کیا، اور مرکزی مسجد ان کا مرکزی دفتر تھی۔"
انہوں نے مزید کہا، "اس کی تمام کاروائیاں اس بازار سے کی جاتی تھیں، جس سے 2008 میں یہ ٹی ٹی پی اور فوج کے درمیان مرکزی میدانِ جنگ تھا۔"
ہلال نے کہا، "6 اگست، 2008 سے اب تک یہ بازار فعال نہ تھا۔ عسکریت پسندوں نے کاروباری سرگرمی اور روزمرہ زندگی کو بری طرح نقصان پہنچایا، لیکن اب زندگی دوبارہ معمول پر آ چکی ہے، اور لوگ بحالیٴ امن سے خوش ہیں۔"
ہلال نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے اس علاقہ کا انتظام سنبھالے جانے سے قبل، اس بازار میں 80 کاروبار چل رہے تھے، جن میں گندم کی چکیاں اور سرسوں کے تیل کی مشینیں بنانے والے چھوٹے کاروبار بھی شامل تھے۔
انہوں نے کہا، "ہم نے حکام اور عطیہ دہندگان سے ان دکانوں کی تعمیرِ نو میں مدد کے لیے کہا ہے جو تاحال نقصان سے متاثر ہیں، اور امّید ہے کہ وہ جلد ہی ہم سے تعاون کریں گے۔"
انہوں نے کہا کہ تین ریستورانوں، ایک حجام کی دکان، ایک دندان ساز کے کلینک، ایک جنرل سٹور، دو پھل کی دکانوں اور ایک موٹرسائیکل مکینک نے حال ہی میں کاروبار کا دوبارہ آغاز کیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ- نواز باجوڑ باب کے ایک ترجمان محمّد گل خان نے کہا، "ہم خوش ہیں کہسیکیورٹی فورسز کی وجہ سے اب ہمارا علاقہ پر امن ہے، اور سیوائی بازار کے دوبارہ آغاز سے مقامی کاربار کو فروغ ملے گا۔"
انہوں نے کہا، "بازار کے دوبارہ کھلنے سے علاقہ کے بے روزگار مکینوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔"
نوجوانوں کے لیے جمع ہونے کا ایک مقام
ایک مقامی باشندے، بلال خان نے کہا، "کبھی یہ سیوائی بازار شام میں نوجوانوں کے لیے گھومنے پھرنے کے لیے استعمال ہونے کی وجہ سے معروف تھا، لیکن جب ٹی ٹی پی نے 2007-2008 میں اس تنصیب کا انتظام اپنے قبضہ میں لیا تو انہوں نے اس پر پابندی عائد کر دی۔"
انہوں نے کہا، "بحالیٴ امن کے بعد، یہ مرکز ایک مرتبہ پھر نوجوانوں کے گھومنے پھرنے کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے۔"
نوجوانوں کے ایک مقامی گروہ، باجوڑ یوتھ ویلفیئر آرگنائزیشن کے ایک رکن یونس خان نے کہا، "نوجوان اور دیگر گروہ معاشرتی سرگرمیوں کے لیے نو تعمیر شدہ ریستوران باغبان میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ کبھی یہ مقام ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا، لیکن اب نوجوان اسے معاشرتی اور تعمیری سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ نوجوان افراد کے گروہ رات گئے تک اس معروف ریستوران پر جمع رہتے ہیں۔
ایک جنرل سٹور کے مالک اور ایک مقامی باشندے، فضل خان نے کہا کہ وہ بازار اور اپنے کاروبار کے دوبارہ کھلنے پر پرجوش ہیں۔
انہوں نے کہا، "میں 2008 میں سیوائی بازار میں ایک خوانچہ فروش تھا اور حال ہی میں میں نے دوبارہ کاروبار کا آغاز کیا ہے۔ میں بہت خوش ہوں کہ اب میں نے دوبارہ اپنے کاروبار کا آغاز کر دیا ہے۔ میں 2008 سے بے روزگار ہوں، لیکن اب میں دوبارہ کام کر رہا ہوں۔"
بازار میں پاپولر کراچی بریانی ریستوران کے مالک اصغر خان نے کہا، "حکومت کو چاہیئے کہ اس مرکز میں کاروباروں کے فروغ کے لیے چھوٹی گرانٹس دے، کیوں کہ ہمارے کاروباروں کو مالی معاونت کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے کہا، "میرے ہر روز کے 100 سے زائد گاہک ہوتے ہیں اور میں اپنے کاوبار کو مزید بہتر بنانا چاہتا ہوں، لیکن اس میں کچھ معاونت کی ضرورت ہے۔"
بازار میں ایک اور کاروبار کے مالک ماہتاب خان نے بھی حکومتی معاونت کی ضرورت کو دہرایا۔
انہوں نے کہا، "معیشت کی بحالی ناگزیر ہے، اور حکومت اور دیگر عطیہ دہندہ تنظیموں کو بازار کے تاجروں کی مدد کے لیے سامنے آنا چاہیئے۔ ہمیں پہلے متاثرہ دکانداروں کی معیشت کو مستحکم کرنا ہو گا کیوں کہ ان کے کاروبار ایک دہائی کے لیے بند تھے۔"
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، "تباہ شدہ دکانوں والے تاجروں کا فوری طور پر ازالہ ہونا چاہیئے۔ منتخب نمائندگان کو امداد فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔"
اچھی خبر
جوابتبصرے 2
اچھی خبر۔ کبھی یہ علاقہ ٹی ٹی پی کا گڑھ ہوا کرتا تھا، لیکن اب بحالیٴ امن کے بعد لوگ اپنی زندگیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
جوابتبصرے 2