دہشتگردی

عسکریت پسندی میں کمی کے بعد امن گروہوں نے شمالی سندھ میں کوششیں تیز کر دیں

ضیاء الرحمان

شمالی سندھ سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے سرگرم کارکن، مقامی منتخب نمائںدے اور برادری کے بزرگ، 15 مارچ کو کراچی میں ایک امن کی تقریب میں شریک ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

شمالی سندھ سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے سرگرم کارکن، مقامی منتخب نمائںدے اور برادری کے بزرگ، 15 مارچ کو کراچی میں ایک امن کی تقریب میں شریک ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

شکارپور -- شمالی صوبہ سندھ میں عسکریت پسند گروہوں، جن میں "دولتِ اسلامیہ کی خراسان شاخ (داعش-کے) بھی شامل ہے، کی کمزوری، سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں کو علاقے میں دیرپا امن کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کر دینے پر اکسا رہی ہے۔

علاقے میں داعش -کے، کی متشدد مہم اس کے علاقائی راہنماؤں، عبدل حفیظ پندرانی اور مولوی عبداللہ بروہی کیفروری 2018 میں صوبہ بلوچستان میں، پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاکت کے، بعد سے تنزلی کا شکار ہے۔

اب، شمالی سندھ میں سول سوسائٹی کے گروہ بہت سی ایسی پہلکاریوں کا آغاز کر رہے ہیں جن میں شہری، خصوصی طور پر نوجوان اور منتخب نمائندے شامل ہیں اور ان کا مقصد علاقے میں امن کو قائم رکھنا ہے۔

سول سوسائٹی کے ایک گروہ، پائیدار سماجی ترقی کی تنظیم (ایس ایس ڈی او) نے حال ہی میں علاقے میں کام شروع کیا ہے تاکہ منتخب شدہ مقامی حکام، یونین کونسلوں کے سیکریٹریوں اور مقامی شراکت داروں کی، شمالی سندھ میں متشدد انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے سے متعلقہ قوانین کے بارے میں صلاحیت سازی کی جا سکے۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندے، 25 مارچ کو کراچی میں صوبہ میں متشدد انتہاپسندی کے خاتمے سے متعلقہ قوانین پر صلاحیت سازی کے بارے میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

سندھ سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندے، 25 مارچ کو کراچی میں صوبہ میں متشدد انتہاپسندی کے خاتمے سے متعلقہ قوانین پر صلاحیت سازی کے بارے میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی کے سیکورٹی کے اہلکار 4 جولائی کو ایک نگرانی کی چوکی پر کھڑے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی کے سیکورٹی کے اہلکار 4 جولائی کو ایک نگرانی کی چوکی پر کھڑے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے کہا کہ "مشتدد انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے اور نوجوانوں کو ان کالعدم عسکریت پسند گروہوں میں شامل ہونے سے روکنے کی کوششوں میں منتخب نمائندوں کو شامل کرنا ایک مفید حکمتِ عملی ہے اور ہماری تنظیم نے اس سے مماثل منصوبوں کی جنوبی پنجاب میں کامیابی کا مشاہدہ کیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں نئے منصوبہ کے تحت، سندھ اسمبلی کے ارکان کو انتہاپسندی کا خاتمہ کرنے والے قوانین، جن میں سندھ ساونڈ سسٹم ایکٹ، سندھ انفرمیشن آف ٹیمپریری ریزیڈنٹس ایکٹ اور سندھ ویٹنس پروٹیکشن لاء شامل ہیں، کے بارے میں بہتر سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے تربیت فراہم کی گئی ہے۔

سندھ ساونڈ سسٹم لاء، جسے 2015 میں منظور کیا گیا تھا، عبادت گاہوں اور عوامی اجتماعات میں لاوڈ اسپیکروں کے استعمال کو ممنوع کرتا ہے اور یہ نفرت انگیز تقریر کو وسعت دینے سے روکنے کی ایک کوشش ہے۔

سندھ انفرمیشن آف ٹیمپریری ریزیڈنٹس ایکٹ، جسے 2015 میں منظور کیا گیا تھا، پولیس کو کرایے کے گھروں میں رہنے والے کرایہ داروں یا مہمانوں کی موجودگی کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے تاکہ مبینہ دہشت گردوں کا پتہ لگانے کے لیے مرکزی نظام میں ایک ڈیٹا بیس قائم رکھا جا سکے۔

سندھ ویٹنس پروٹیکشن لاء جو 2013 میں منظور ہوا تھا، عینی شاہدین اور ان کے اہلِ خاندان کی ہمت افزائی کرتا ہے کہ وہ مختلف کیسوں میں اہم شواہد پیش کریں، خصوصی طور پر وہ جن میں عسکریت پسند گروہ ملوث ہیں اور اسی دوران ان کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔

عباس نے کہا کہ اس پروگرام کے اگلے مرحلہ میں، میونسپلٹی میں قرب و جوار کی سطح پر نمائندوں کو تربیت دی جائے گی کہ دہشت گردی سے جنگ کرنے کے لیے، ان قوانین کو درست طریقے سے کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔

عباس نے کہا کہ "منتخب نمائندوں کی صلاحیت سازی سے نفرت انگیز تقریر کے مقابلہ کرنے اور مقامی برادریوں میں بین المذہبی سوچ کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی"۔

شمالی سندھ میں زندگی معمول پر واپس

سندھ کا شمالی علاقہ، جو شکارپور، جیکب آباد، کشمور اور سکھر کے اضلاع پر مشتمل ہے، علاقے میں داعش-کے کا نیٹ ورک توڑے جانے سے پہلے، دہشت گردی کا گڑھ تھا۔

یہ گروہ جولائی 2018 میںبلوچستان عوامی پارٹی کی مستانگ ڈسٹرکٹ، بلوچستان میں ہونے والی سیاسی ریلی میں ہونے والے خودکش دھماکے میں ملوث تھا جس میں 149 افراد جن میں امیدوار سراج رئیسانی بھی شامل تھے، ہلاک ہو گئے تھے۔

فروری 2017 میں، اس تنظیم نے سہون، سندھ میں صوفی بزرگ لال شہباز قلندر کے مزار پر خودکش حملہ کیا جس میں 85 افراد ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔

دوسرے حملوں میں اکتوبر 2016 میں کوئٹہ کے تربیتی مرکز پر حملہ جس میں 60 سے زیادہ کیڈٹ ہلاک ہو گئے تھے اور اس کے ساتھ ہی جنوری 2015 میں شکارپور کی ایک شیعہ مسجد پر خودکش حملہ بھی شامل ہے جس میں 61 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ساجد امیر سادوزئی جو کہ اس وقت شکارپور پولیس کے سربراہ تھے جب پندرانی اور بوہری ہلاک ہوئے تھے، نے کہا کہ "یہ گروہ سندھ-بلوچستان کے سرحدی علاقے میں امن و امان کی صورت حال کو خراب کر رہا تھا"۔

"ان کے راہنماؤں کی ہلاکتوں کے بعد، علاقے نے دہشت گردی میں قابلِ قدر کمی دیکھی ہے"۔

ان کی ہلاکتوں کے بعد بھی، دہشت گرد راہنماؤں کی موجودگی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

سندھ پولیس کی طرف سے 13 مارچ کو شکارپور ڈسٹرکٹ کے قریب ایک گاؤں سے بھاری ہتھیاروں کی بازیابی کے بعد، علاقائی پولیس چیف عرفان بلوچ نے کہا کہ پندرانی نے علاقے میں دہشت گردی کی بڑی کاروائیاں کرنے کے لیے منصوبہ کے تحت ان ہتھیاروں کو جمع کیا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500