انتخابات

مستونگ میں ہونے والے قتل عام کے تناظر میں انسداد دہشت گردی آپریشن جاری

عبدالغنی کاکڑ

مستونگ میں 13 جولائی کو داعش کے خود کش دھماکے کے بعد جس میں 149 افراد ہلاک ہوئے تھے پاکستانی نگراں وزیراعظم ناصرالملک نے اتوار (15 جولائی) کو ایک اعلیٰ سطحی سیکورٹی اجلاس کی صدارت کے لئے کوئٹہ کا دورہ کیا۔ [عبدالغنی کاکڑ]

کوئٹہ -- اختتام ہفتہ ایک سیاسی جلسے پر خود کش بمبار کے حملے کے بعد سیکورٹی فورسز نے بلوچستان میں۔ "دولت اسلامی عراق وشام" (داعش) کے خلاف ایک وسیع انسداد دہشت گردی کارروائی کا آغاز کردیا ہے-

بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات ملک خرم شہزاد نے پیر (16 جولائی) کو پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ 13 جولائی کو ہونے والے حملوں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 149 ہوگئی ہے جبکہ 186 زخمی ہیں۔

دھماکے میں مقامی سیاست داں سراج رئیسانی کو نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے حامیوں سے بات کر رہے تھے۔ رئیسانی جاں بحق ہو گئے۔

جاں بحق ہونے والوں میں 6-11 سال کے نو بچے شامل ہیں، اتوار کو مستونگ ریجن کے ڈپٹی کمشنر قائم لاشاری نے بتاتے ہوئے مزید کہا کہ 70 زخمی ہسپتال میں ہیں جن میں سے پانچ کی حالت تشویشناک ہے۔

ایک پاکستانی صحافی مستونگ میں 13 جولائی کو الیکشن ریلی کے دوران ہونے والے خودکش دھماکے کے ملبے کے قریب سے 14 جولائی کو گزر رہا ہے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

ایک پاکستانی صحافی مستونگ میں 13 جولائی کو الیکشن ریلی کے دوران ہونے والے خودکش دھماکے کے ملبے کے قریب سے 14 جولائی کو گزر رہا ہے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان دیگر افراد کے ہمراہ 15 جولائی کو کوئٹہ میں صوبائی اسمبلی کے ایک امیدوار سراج سنجرانی کے لئے فاتحہ خوانی کررہے ہیں جو 13 جولائی کو مستونگ میں خودکش دھماکے میں شہید ہوئے تھے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان دیگر افراد کے ہمراہ 15 جولائی کو کوئٹہ میں صوبائی اسمبلی کے ایک امیدوار سراج سنجرانی کے لئے فاتحہ خوانی کررہے ہیں جو 13 جولائی کو مستونگ میں خودکش دھماکے میں شہید ہوئے تھے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

15 جولائی کو نگراں وزیراعظم ناصرالملک (درمیان میں) نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ علاؤالدین مری (دائیں جانب) اور گورنر محمد خان اچکزئی (بائیں جانب) سے ملاقات کی۔ [عبدالغنی کاکڑ]

15 جولائی کو نگراں وزیراعظم ناصرالملک (درمیان میں) نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ علاؤالدین مری (دائیں جانب) اور گورنر محمد خان اچکزئی (بائیں جانب) سے ملاقات کی۔ [عبدالغنی کاکڑ]

تازہ ترین ہلاکتوں کی تعداد 2007 میں راولپنڈی میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوکو نشانہ بنانے والے بم دھماکے جس میں بھٹو کے بشمول 139 اموات سے تجاوز کرگئی ہے۔

ملک کی بد ترین ہلاکتوں کی تعداد 2014 میں پشاور میںآرمی پبلک اسکول کے قتل عام کی ہے جس میں 150 ہلاکتیں ہوئیں جس میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔

صدمہ اور دہشت

ہلاکت خیز حملے کے بعد وسیع پیمانے پر"صدمہ اور خوف پھیل گیا" شہزاد نے بتایا۔ "پورا صوبہ سوگ میں ہے اور اس نے بلوچستان میں جاری انتخابی مہم کو بری طرح متاثر کیا ہے۔"

انتخابی عمل پر یقین متزلزل کرنے اور انارکی کی صورتحال پیدا کرنے کے لئے مخالف قوتیں قانون کی حکمرانی کو چیلینج کررہی ہیں، انہوں نے بتایا۔ "یہ عوام کو ریاست کے خلاف بھڑکانے کی کوشش ہے۔"

"قبائلی رہنما سراج رئیسانی نے جیسے ہی اسٹیج پر اپنی تقریر شروع کی اچانک ہی ایک ہولناک دھماکہ ہوا،" سول ہسپتال کوئٹہ میں ایک عینی شاہد جمیل پیرکانی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "یہ ایک انتہائی شدت کا دھماکہ تھا جس نے ہر طرف جسمانی اعضا بکھیر دیے۔"

ایک اور عینی شاہد ظہور بلوچ نے جو زخمی تھا بتایا، "دھماکہ اتنا ہلاکت خیز اور ہولناک تھا جو میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں سنا۔"

دھماکے کے متاثرین کو کوئٹہ منتقل کرنے والے ایک امدادی کارکن محمد ذیشان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "جب ہم امدادی کارروائیوں کے لئے موقع پر پہنچے، لاشیں ہر طرف بکھری ہوئی تھیں اور زخمی [بچ جانے والے] مدد کے لئے پکار رہے تھے۔"

انہوں نے بتایا، "ایک ہی خاندان کے کئی افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔"

گرفتاریاں کی گئیں

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر انٹیلی جنس عہدیدار، شعیب زاہد نے کہا کہ حکام نے فوری طور پر حملہ میں تعاون کرنے والے متعدد مشتبہ ملزمان کی شناخت کی اور انہیں گرفتار کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "داعش عسکریت پسند ہمارے خطے میں بڑے منصوبوں پر عملدرامد میں مقامی حمایت بروئے کار لا رہے ہیں۔ شدت پسند گروہوں کے خلاف جاری آپریشنز نے بڑے پیمانے پر بلوچستان میں داعش کے حمایتی نیٹ ورک کا خاتمہ کیا ہے، اور اپنے دشمن کے امن مخالف مقاصد کو ناکام بنانا ہماری اولین ترجیح ہے۔"

انہوں نے کہا، "انسدادِ دہشتگردی حکام کی ایک خصوصی ٹیم نے۔۔۔ بلوچستان میں داعش کے ساتھ مبینہ روابط رکھنے پر اب تک نو ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں مزید پیش رفت متوقع ہے کیوں کہ ملزمان نے اپنے نیٹ ورک سے متعلق نہایت اہم معلومات کا انکشاف کیا ہے۔"

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پیر کو ٹویٹ کیا کہ افغان صدر اشرف غنی نے اظہارِ تعزیت کرنے اور "انتخاب کے عرصہ کے دوران پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی معاونت کے لیے [افغان] جانب سرحدی سیکیورٹی اقدامات میں اضافہ یقینی بنانے کے لیے" پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کیا۔

ایک جامع سیکیورٹی پلان

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر دفاعی اہلکار نے اپنی شناخت صیغہٴ راز میں رکھے جانے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ مستونگ حملہ "ان دشمن قوتوں کا ایک منصوبہ تھا جن کی جڑیں ہمارے قبائلی علاقہ جات میں نہایت گہری ہیں۔"

انہوں نے کہا، "پاکستان اور بطورِ خاص بلوچستان میں دہشتگردی کی یہ نئی لہر ملک میں سیاسی استحکام کو ناکام بنانے کے مقصد سے ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی محسوس ہوتی ہے۔"

ذریعہ نے بتایا، "بلوچستان بھر میں ایک جامع سیکیورٹی پلان نافذ ہے اور صوبہ کے تمام حساس علاقوں میں اضافی سیکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔"

بلوچستان کے قائم مقام وزیرِ داخلہ آغا عمر بنگلزئی نے تصدیق کی کہ تمام حساس علاقوں اور سرکاری عمارات پر سیکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے ۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم نے 14 جولائی کو امنِ عامہ کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بلوچستان کی تمام تر سیکیورٹی صورتِ حال کا جائزہ لیا اور طے کیا کہ آنے والے عام انتخابات سے متعلق تمام تر سیکیورٹی خدشات سے ایک جامع منصوبہ کے ذریعے نمٹا جائے گا اور یہ کہ عوام کو تمام تر ضروری اقدامات سے آگاہ کیا جائے گا۔"

انہوں نے کہا کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور دشمن عوام الناس کو انتخابات سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن منصوبہ پر کام کر رہا ہے ۔

سیکیورٹی سے متعلق اعتماد سازی

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک دفاعی تجزیہ کار میجر ریٹائرڈ عمر فاروق نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "اب داعش پاکستان میں اپنے قدم جمانے کے لیے تمام تر وسائل استعمال کر رہا ہے۔ دیگر دہشتگرد گروہ اتنا بڑا دہشتگرد حملہ نہیں کر سکتے۔"

انہوں نے کہا، "بلوچستان میں انسدادِ شورش کے جاری آپریشنز میں داعش کی کارگری کی استعداد کا بڑی حد تک خاتمہ ہوا تھا، لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی تک بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی قبائلی پٹی کے اندر کاروائیاں کرنے والے عسکریت پسندوں کا ایک فعال نیٹ ورک موجود ہے۔"

انہوں نے کہا، "قومی سیکیورٹی پالیسی میں ان نمایاں دراڑوں کو پر کرنا ناگزیر ہے، جن کی وجہ سے عسکریت پسندوں کو حساس علاقوں تک باسانی رسائی حاصل ہے۔"

فاروق نے کہا، "عوام اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان عدم اعتماد کی بیخ کنی کے بغیر عسکریت پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ریاست کو چاہیئے کہ عوام کو تازہ ترین سیکیورٹی صورتِ حال اور امن کے عمل میں اس کے کردار سے متعلق آگاہ کرنے کے لیے ایک پالیسی مرتب کرے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

مجھے پاک فوج سے پیار ہے

جواب