تعلیم

اقوامِ متحدہ اور کے پی کُرم اور اورکزئی میں بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے متحد

از محمد شکیل

اورکزئی اور کُرم اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے مقصد سے اقوامِ متحدہ اور پاکستان کے حکام 20 فروری کو پشاور میں مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کرنے کی تقریب میں شریک ہیں۔[یو این ڈی پی]

اورکزئی اور کُرم اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے مقصد سے اقوامِ متحدہ اور پاکستان کے حکام 20 فروری کو پشاور میں مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کرنے کی تقریب میں شریک ہیں۔[یو این ڈی پی]

پشاور -- اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور خیبرپختونخوا (کے پی) کے حکام نے کُرم اور اورکزئی میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے حال ہی میں مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ اس اقدام کو اساتذہ اور والدین کی جانب سے سراہا گیا ہے۔

20 فروری کو یو این ڈی پی کے ایک بیان کے مطابق، گلوبل افیئرز کینیڈا کی جانب سے سرمایہ کاری کے ساتھ، منصوبے کا اطلاق یو این ڈی پی، اقوامِ متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) اور کے پی محکمۂ ایلیمنٹری و ثانوی تعلیم کی جانب سے مشترکہ طور پر کیا جائے گا۔

یو این ڈی پی نے کہا کہ تین سالہ کوشش محکمۂ تعلیم، علاقے اور طالبات کو معاونت فراہم کرے گی اور نو عمر بچیوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے، تقریباً 14،000 طالبات کے لیے تعلیم تک رسائی کو بہتر بنائے گی۔

منصوبے میں 100 نقصان زدہ سکولوں کی بحالی اور سکول کا پڑھائی کے سامان اور فرنیچر کی فراہمی شامل ہو گی۔

یو این ڈی پی کا مزید کہنا تھا کہ 300 سے زائد اساتذہ کو "طالب علم پر مرتکز اور صنفی طور پر موافق تدریسی روایات" پر تربیت دی جائے گی۔ پروگرام لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو فروغ دینے اور اس کی نگرانی کرنے کے لیے تقریباً 155 والدین-استاد انجمنیں اور ماؤں کے گروپ بنائے گا اور انہیں تربیت دے گا۔

کُرم اور اورکزئی اضلاع کے 155 سکولوں میں سکول کی نوعمر بچیوں کے لیے صحت اور طہارت سے آگاہی کی نشستوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

"یو این ڈی پی کے بیان کے مطابق، پشاور میں یادداشت پر دستخط کرنے کی تقریب کے دوران، یو این ڈی پی پاکستان کے مقامی نمائندے اگناشیو ارتازا نے کہا، "غربت کے چکر کو توڑنے میں تعلیم پہلا قدم ہے۔ ضم کردہ اضلاع کے مستقبل کا انحصار رسمی اور غیر رسمی تعلیم کے ذریعے اس کی نوجوان [نسل] کو صلاحیتوں سے لیس کرنے پر ہے۔"

بہتر سیکیورٹی

وادیٔ کُرم کی انجمنِ اساتذہ کے صدر، سید زاہد حسین قاضی نے کہا، "ہم حکام کی جانب سےقبائلی اضلاع میں تعلیم کو فروغ دینےکے لیے کی گئی تمام کوششوں اور پہل کاریوں کو سراہتے ہیں، جہاں امن و امان کی صورتِ حال کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی نے بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "کُرم کے عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں امن و امان کی غیر تسلی بخش صورتِ حال اور بڑھتی ہوئی انتہاپسندی نے بہت سے والدین کو اپنی سکول جانے والی بچیوں کو اپنے گھروں میں محصور کر دینے پر مجبور کر دیا تھا۔"

قاضی کا کہنا تھا، "اُس وقت، عسکریت پسندوں، جنہوں نے وسطی کُرم میں بہت سے تعلیمی اداروں کو تباہ کر دیا تھا، کے بڑھتے ہوئے خطرے نے والدین اور طالبات میں عدم تحفظ اور خوف کا ایک پائیدار احساس راسخ کر دیا تھا۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "عسکریت پسندی کے خاتمے کے بعد امن و امان کی بہتر صورتحال اور کے پی محکمۂ تعلیم کے ساتھ غیر ملکی مخیر حضرات کے تعاون کا آنا ۔۔ ایک نیک شگون ہے جس کی کُرم اور اورکزئی قبائلی اضلاع میں تعلیم، خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے ضرورت تھی۔"

قاضی نے کہا، "انتہاپسندی کے عرصے کے دوران غیر یقینی اور دہشت نے والدین کو اپنے بچوں کو سکولوں میں بھیجنے سے روکے رکھا۔ اب، [سنہ 2018 میں سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات اور کے پی کے] انضمام کے بعد والدین نئی پیش رفت سے پُرامید ہیں اور اپنے بچوں، خصوصاً لڑکیوں کے لیے بہتر امکانات پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔"

پارا چنار، ضلع کُرم میں مقیم دو بچوں کے والد، عظمت علی زئی نے کہا، "سنہ 2007 کے بعد کُرم ایجنسی میں صورتحال خراب ہو گئی تھی، جبکہ عسکریت پسندی کے دوران تعلیم، خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف پراپیگنڈے نے والدین کو خوف میں مبتلا کر دیا اور ان علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو متاثر کیا۔"

ان کا کہنا تھا، "عسکریت پسندی کے عرصے کے دوران بالائی کُرم، کے علاقوں، بشمول ڈوگر، جہاں علی شیرازی اور موسیٰ زئی قبائل آباد ہیں اور بوغاکی، پیوار، شالوزان اور خائیواص کے دیہات میں واقع سکولوں کو نقصان پہنچا تھا۔"

انہوں نے یاد دلایا کہ اس عرصے کے دوران وسطی کُرم میں اُن سکولوں کو زیادہ نقصان پہنچا تھا جن میں لڑکیوں میں خواندگی کی شرح سب سے زیادہ تھی۔

علی زئی نے کہا، "ان علاقوں میں مقیم خاندانوں نے نے نامساعد حالات کی وجہ سے عسکریت پسندی کے نتیجے میں سکولوں کے شکستہ حال ڈھانچوں کی وجہ سے اپنے بچوں کو پڑھانا بند کر دیا تھا۔"

انہوں نے کہا، "تعلیم کے فروغ کے لیے دانشمندانہ خرچ ان امکانات کو روکے گا کہ نوجوانوں کاانتہاپسند قوتوں کی جانب سے استحصال کیا جائے اورانہیں گمراہ کیا جائے۔"

خوف کو شکست دینا

گورنمنٹ ہائر سیکینڈری سکول مشتی بازار کے ایک استاد اور انجمنِ اساتذہ اورکزئی کے صدر، حاجی فیروز خان نے کہا، "بالائی اورکزئی کے مختلف سکولوں، بشمول ماموزئی اور ملا خیل کے علاقوں میں، کو عسکریت پسندی کے دوران نقصان پہنچا تھا، جس کے نتیجے میں افراتفری پھیلی اور تعلیمی سرگرمیوں میں خلل واقع ہوا۔"

انہوں نے کہا، "امن و امان کی صورتحال اور انتہاپسندوں کی تعلیم دشمنی کی وجہ سے والدین کے دلوں میں خوف بیٹھ گیا اور بچوں نے سکول جانا چھوڑ دیا۔"

خان نے کہا، "[فاٹا-کے پی] انضمام کے بعد قبائلی پٹی میں امن کی بحالی اور عوامی فلاحی منصوبوں کا آغاز امید اور ۔۔۔ قبائلی بچوں کے لیے بہتر مستقبل کے چراغ ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500