تعلیم

حکومت نے قبائلی طلباء و طالبات کے لیے کالج کے داخلوں میں اضافہ کر دیا

از اشفاق یوسفزئی

خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر ارشد جاوید 1 جنوری کو کے ایم یو میں ایک میڈیکل سائنس سیمینار کے دوران ایک آلے کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [کے ایم یو]

خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر ارشد جاوید 1 جنوری کو کے ایم یو میں ایک میڈیکل سائنس سیمینار کے دوران ایک آلے کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [کے ایم یو]

پشاور -- حکومت ضم کردہ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کے لیے طب اور انجینیئرنگ جیسے شعبوں میں یونیورسٹی کے داخلوں کی تعداد میں اضافہ کر رہی ہے، یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کا مقصد دہائیوں کی دہشت گردی سے متاثرہ علاقے کے نوجوانوں کو عسکریت پسندی سے دور کرنا اور ترقی میں اضافہ کرنا ہے۔

وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود کے مطابق، حکومت نے گزشتہ دسمبر میں ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے میڈیکل کے طلباء و طالبات کے کوٹے میں دگنا اضافہ کر کے 175 سے 350 کر دیا ہے، جبکہ انجینیئرنگ کے داخلے 108 سے بڑھ کر 216 ہو گئے ہیں اور دیگر مضامین کے لیے داخلے 1،719 سے بڑھ کر 3،192 ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "اضافہ مارچ 2017 میں کابینہ کے ایک فیصلے کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ ہمیں نوجوانوں کو عسکریت پسندی کے دور رکھنے کے لیے انہیں مزید تعلیمی مواقع دینےکے ذریعے انہیں مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔"

شمالی وزیرستان میں میر علی گورنمنٹ ڈگری کالج میں سالِ اول کے طالب علم، محمد اسلم نے کہا، "یہ طلباء و طالبات کے لیے بہت حوصلہ افزاء ہے کیونکہ یہ غریبوں کے لیے ڈاکٹر اور انجینیئر بننے کے دروازے کھولے گا۔"

خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر ارشد جاوید 30 جنوری کو کے ایم یو میں ایک ڈاکٹر کو وظیفے کی دستاویزات دیتے ہوئے۔ [کے ایم یو]

خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر ارشد جاوید 30 جنوری کو کے ایم یو میں ایک ڈاکٹر کو وظیفے کی دستاویزات دیتے ہوئے۔ [کے ایم یو]

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں عسکریت پسند قبائلی علاقوں میں سینکڑوں ایسے نوجوانوں کو بھرتی کرتے رہے ہیں جن کی دماغ دھلائی کر کے انہوں نے خودکش بمبار بنا دیا، انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم کے لیے مواقع کی کمی نے ان نوجوانوں کو حساس بنا دیا تھا۔

اسلم نے کہا کہ اب، یہ ایک نعمت ہے کہ حکومت نے سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے مقامی باشندوں کے لیے داخلوں کا کوٹہ بڑھا دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا، "اس سے طلباء و طالبات میں مقابلے کی ایک فضاء پیدا ہو گی، اور ایک ایسا تعلیمی ماحول بنے گا جس میں عسکریت پسندی کو کوئی جگہ نہیں ملے گی۔"

ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیے صحت کے ڈائریکٹوریٹ پر ایک اہلکار، فضل مقیم نے کہا کہ کوٹے کا اقدام حکومت کی دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں اور ان کی آبادی کو ترقی دینے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا، "یہ قابلِ تحسین اقدام ہے کیونکہ یہ طلباء و طالبات کو تعلیم حاصل کرنے کے قابل بنائے گا؛ جس کا وہ ایک طویل عرصے سے اضافی داخلوں کے لیے مطالبہ کرتے رہے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ان لوگوں کی بدقسمتی ہے جو عوام کو جاہل رکھنے کے لیے دہشت گردی کے ذریعے خوف پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

وفاقی حکومت نے جنوری 2018 میں فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کے بعد 10 برس کے عرصے میں صحت اور تعلیم کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے 100 بلین روہے (645 ملین ڈالر) کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔

خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر ارشد جاوید نے کہا کہ ضم ہونے والے ساتوں اضلاع میں سے ہر ایک کی اب میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں 50 نشستیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "ہمیں ماضی میں عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقے میں تعیناتی کے لیے مزید ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی نے عوام، خصوصاً نوجوانوں کو نقصان پہنچایا ہے۔"

میڈیکل کالج مزید طلباء و طالبات کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے سنہ 1960 کے عشرے سے سات قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کو کوٹہ کے نظام کے تحت داخلہ دیتے رہے ہیں۔

سکول جنگجوؤں کا ہدف

یونیورسٹی آف پشاور میں پولیٹیکل سائنس کے استاد کلیم اللہ خان نے کہا کہ یہ اقدام بروقت اور درست ہے کیونکہ تعلیم اور سہولت کی خدمات کو دہشت گردوں کی فسادی مہمات سے نقصان پہنچا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنگجوؤں نے عوام کو تعلیم اور طبی علاج سے محروم رکھنے کے لیے سکولوں اور ہسپتالوں کو ہدف بنایا۔

خان کا کہنا تھا، "صرفتعلیم کا فروغ ہی عسکریت پسندی کو شکست دے سکتا ہے، اور ایسے اقدامات بار آور ہوں گے اور آخرکار امن قائم ہو گا۔"

17 سالہ کشمالہ بی بی جنہیں گزشتہ نومبر میں کوٹہ کے نظام کے تحت لاہور میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن (پی آئی ایف ڈی) میں داخلہ ملا تھا، اپنے مواقع کے متعلق بہت پرجوش ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "اگر کوٹہ میں اضافہ نہ ہوا ہوتا تو مجھے داخلہ نہ ملتا۔"

پی آئی ایف ڈی میں کوٹہ 7 سے بڑھ کر 14 ہو گیا ہے، جس سے وہ داخلہ لینے کے قابل ہوئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی کزن کو فیصل آباد میں نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی میں داخلہ ملا تھا، جہاں کوٹہ 9 سے بڑھ کر 18 ہو گیا تھا۔

پشاور کے مقامی ایک ماہرِ تعلیم، سیف الاسلام نے حکومتی فیصلے کی تعریف کی۔

ان کا کہنا تھا، "تعلیمی اداروں میں نشستوں کا دوگنا ہونا ایک ایسے وقت میں خوش آئند پیشرفت ہے جب عسکری آپریشنوں کے ذریعے جنگجوؤں کو شکست دی جا چکی ہے اور پاکستانیوں کو پیشہ وارانہ تعلیم کے لیے مزید مواقع کی ضرورت ہے۔"

دہشت گردوں کی قدم جمائی کا خاتمہ

اسلام کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کے مکینوں کا فوج سے مطالبہ ہے کہ علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کیا جائے اور ان کے لیے اپنی بہتری کے دروازے کھولے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے مستقل خاتمے کے لیے،نوجوانوں کو تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت ہےتاکہ وہ حتمی امن کا راستہ ہموار کرنے میں مدد کر سکیں۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہ کہ قبائلی باشندے عسکریت پسندی اور طویل عرصے سے اپنے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہونے سے اکتا گئے ہیں۔

اسلام نے کہا کہ اب، نوجوان علم حاصل کرنا اور اپنے آبائی علاقوں کو ترقی دینے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

کے پی حکومت کے ترجمان اجمل وزیر نے کہا کہ اب قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردوں کے واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، "ہم نے نئے سکول، کالج، ہسپتال اور حرفتی ادارے تعمیر کرنا شروع کر دیا ہے۔۔۔ ہم قبائلی اضلاع کی اہمیت سے واقف ہیں اور انہیں ترقی دینا چاہتے ہیں تاکہ دہشت گردوں کو مستقبل میں قدم جمانے کی کوئی جگہ نہ ملے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اس مضمون میں صرف جھوٹے وعدوں کا ذکر ہے مگر جو حقیقت ہے وہ چھپایا گیا ہے

جواب