معیشت

شکستوں کے سلسلے کے بعد داعش سرمایہ کاری حاصل کرنے کے اہم ذرائع واپس حاصل کرنے میں کوشاں

از خالد التائی

یہاں داعش کے ارکان کو سنہ 2018 میں شام کے اندر داعش مخالف کارروائیوں کے دوران اوٹ لینے کے لیے بھاگتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ [فائل]

یہاں داعش کے ارکان کو سنہ 2018 میں شام کے اندر داعش مخالف کارروائیوں کے دوران اوٹ لینے کے لیے بھاگتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ [فائل]

اپنے اختیار کے عروج پر، "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) نے تیل کی سمگلنگ، بینکوں کی لوٹ مار اور زبردستی چھینی گئی مصنوعات اور ناقابلِ انتقال قومی خزانوں کی تجارت سے پیسہ جمع کیا تھا۔

عراق اور شام میں اپنی دہشت کے سائے میں، تنظیم مبینہ طور پر صرف سمگل شدہ تیل کے محاصل سے 50 ملین ڈالر ماہانہ جمع کر لیا کرتی تھی۔

داعش نے جب موصل، عراق پر قبضہ کیا تھا تو اس نے بینکوں سے 500 ملین ڈالر قبضے میں لے لیے تھے، جبکہ لوٹے ہوئے سامان کی اس کی تجارت سے اسے 150 ملین ڈالر سے 200 ملین ڈالر کے درمیان رقم اپنی کارروائیوں کے لیے حاصل ہوئی تھی۔

جن علاقوں پر اس کا قبضہ تھا وہاں سے نکالے جانے اور بڑے پیمانے پر شکستوں کا سامنا کرنے کی وجہ سے، تنظیم اب اپنے محاصل کے مرکزی ذرائع سے محروم ہو کر مالی مشکلات کا شکار ہو چکی ہے۔

17 نومبر کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع جلال آباد میں داعش کے ہتھیار ڈالنے والے جنگجو مقامی حکام کے سامنے قطار بنائے کھڑے ہیں۔ [خالد زیرائی]

17 نومبر کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع جلال آباد میں داعش کے ہتھیار ڈالنے والے جنگجو مقامی حکام کے سامنے قطار بنائے کھڑے ہیں۔ [خالد زیرائی]

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ مزید "روایتی ذرائع" کے ذریعے سرمائے کے متبادل ذرائع تلاش کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

داعش کے امیر ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کے بعد، امریکی وزارتِ خزانہ کے نائب سیکریٹری برائے دہشت گردی میں سرمایہ کاری مارشل بیلنگسلا نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ تنظیم کا سرمائے کا حصول غالباً ایک "مرکوز" نظام سے مزید بکھرے ہوئے نظام میں منتقل ہو رہا ہے۔

عراقی سیاسی تجزیہ کار عیاد الانبار کا کہنا ہے کہ داعش کے عناصر زیادہ سے زیادہ بھروسہ عراق اور شام کے علاوہ دیگر مقامات میں اپنے خفیہ حلقوں پر کر رہے ہیں، جہاں انہیں بہت زیادہ جاسوسی اور نگرانی سے کم دباؤ کا سامنا کرنا پڑے۔

ان کا کہنا تھا، "مار دھاڑ، اغواء، بلیک میلنگ اور زبردستی ٹیکس اور عطیات وصولی، جو کہ پیسہ کمانے کے ٹھوس طریقے ہیں، تنظیم کے لیے آخری حربہ ہو سکتے ہیں، جو کہ اپنے وسیع ذرائع میں سے بیشتر سے محروم ہو چکی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ داعش اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کے لیے افریقہ یا ایشیاء میں محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں رہی ہے جہاں حفاظتی خلاء موجود ہیں یا تنازعات جاری ہیں۔

افغانستان میں، داعش کو کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں ملا۔ افغان سیکیورٹی فورسز اور نیٹو کی سربراہی میں ریزولیوٹ سپورٹ مشن کی جانب سے مشترکہ فوجی کارروائیوں کے برسوں کے بعد، داعش نے نومبر میں خطے کے اندر اپنی شکست کا اعتراف کیا اور اس کے لگ بھگ 1،500 جنگجوؤں اور ان کے اہلِ خانہ نے سیکیورٹی فورسز کے سامنے ہتھیار ڈالے۔

الانبار کا کہنا تھا کہ جہاں بھی اس کے جنگجو جمع ہوتے ہیں، جب مالی امور سامنے آئیں گے تو تنظیم کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، ان کا مزید کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی نظام نے دہشت گردی میں سرمایہ کاری کے تمام ذرائع، بشمول "روایتی ذرائع" کا سراغ لگانے کے لیے اپنے اقدامات مزید سخت کر دیئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی وزارتِ خزانہ نے کثیر اداروں اور افراد کو شناخت کیا ہے جو انتہاپسند گروہوں کی کفالت کرتے رہے ہیں اور ان کے اثاثہ جات کو منجمد کر دیا ہے اور ان کا لین دین بند کر دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس نے پیسے کے اس بہاؤ کو روک دیا ہے جو داعش بہت سی سرگرمیوں سے مالی تبادلوں کے ذریعے وصول کرتی ہے اور وہ خیراتی کام کے بھیس میں ہو سکتے ہیں۔

داعش کو اس کے وسائل سے محروم کرنا

دفاعی تجزیہ کار جلیل خلاف کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں نے داعش سے اس کے مرکزی کفیل چھین لیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اثاثہ جات اور بینکوں کے ذریعے لین دین کرنے کی نگرانی کی امریکی اور بین الاقوامی کوششیں دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کے راستوں کو بند کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

مزید برآں، انہوں نے کہا، "جنگ کے دوران عراقی فوج اور بین الاقوامی اتحادی افواج کے جنگی جہاز عراق اور شام میں بہت سے دہشت گرد ہیڈکوارٹرز کو تباہ کرنے میں کامیاب رہے تھے جو نقدی کے گوداموں اور سمگلنگ کے تیل اور قیمتی دھاتوں کے لیے مراکز کا کام کرتے تھے"۔

خلاف نے یاد دلایا کہ داعش کی حالیہ قلیل وقتی محاصل جمع کرنے اور پیسہ جمع کرنے کی کوششیں "نشاندہی کرتی ہیں کہ تنظیم بسترِ مرگ پر ہے اور اس کے خزانے خالی ہو چکے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کے تحت، داعش کے لیے پیسے کی کوئی بھی بڑی مقدار جمع کرنا "ناممکن" ہے، کیونکہ تنظیم مالی طور پر کنگال ہو چکی ہے، اس کے میڈیا آپریشن مشکلات کا شکار ہیں اور اس کے جنگجوؤں کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تنظیم کے پاس میدان جنگ میں لڑنے کا کوئی انتخاب باقی نہیں بچا ہے۔

ماہرِ عمرانیات طالب محمد کریم نے کہا کہ داعش ناقابلِ رشک حالت میں ہے کیونکہ اب سے عملی طور پر عاجز تصور کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیسے کے خزانے جو تنظیم نے جمع کیے تھے انہوں نے اسے ایک امیر ترین انتہاپسند گروہ بنا دیا تھا، "لیکن عراق اور اس کے بین الاقوامی اتحادیوں کی غیر معمولی کوششوں کے صدقے یہ دولت تیزی سے ختم ہو گئی"۔

انہوں نے کہا کہ اس غیر قانونی طور پر جمع کردہ پیسے کو ہدف بنانے کی اجتماعی کوششیں جاری ہیں۔

کریم نے مزید کہا جبکہ یہ امکان موجود ہے کہ داعش مزید جنگ لڑنے کے لیے محاصل کے متبادل ذرائع تلاش کرنا جاری رکھے گی، یہ اپنے راستوں پر چلتے رہنے کے قابل نہیں ہو گی، کیونکہ تنظیم کی نگرانی کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کو ہمہ وقت بہتر بنایا جا رہا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

سامراج اب اپنے سکے جلد کھوٹے کرتا ھے۔ اور ویسے بھی سامراجی حکومتوں کا پیسہ بھی لوٹ مار کا۔حاصل ھے ۔دہشت گرد گروپس دراصل سامراجی حکمرانوں کا نقاب ہوتے ہیں

جواب

دنیا بھر میں تمام دہشتگرد گروہوں کے سب سے بڑے مالیات فراہم کندہ قابلِ نفرت امریکی عیسائی بدصورت امریکی سور ہیں اور ان کے ناجائز مالک صیہونی اسرائیلی جہنمی یہودی ہیں۔

جواب