پشاور -- ماہرین اور دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے ارکان جوشام میں شکست کھانے کے بعد وہاں سے فرار ہو رہے ہیںان کو پاکستان اور افغانستان میں دوستانہ ماحول نہیں ملے گا۔
داعش ماضی میں خطے کے اندر حملے کرتی رہی ہے کیونکہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ، لشکرِ اسلام اور دیگر عسکری تنظیموں جیسے گروہوں کی باقیات سرکاری کریک ڈاؤن کی وجہ سے اپنی بقاء کے لیے داعش میں شامل ہو رہی تھیں۔
وسط ایشیاء کے مطالعات کے ماہر اور یونیورسٹی آف پشاور میں علاقائی مطالعہ مرکز کے سابق ڈائریکٹر، ڈاکٹر سرفراز خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ، تاہم اب، دہشت گرد تنظیم "پاکستان میں اپنی بنیادی طاقت کھو چکی ہے، جبکہ اسے افغانستان میں بھی شکست دی جا چکی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے فوجی آپریشن "داعش اور اس کے ہمدردوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے ہیں اور وہ بھاگ رہے ہیں۔"
سرفراز نے مزید کہا، "افغانستان میں بھی، انہیں افغان حکومت نیزافغان طالبان، جو غیر ملکیوں کے ساتھ اپنے اختیار کو تقسیم کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں،کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے ۔۔۔ اور اس کی وجہ ان کے درمیان نظریاتی اختلافات بھی ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ داعش نے پاک-افغان سرحدی علاقے میں انارکی والی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، جب "پھندہ کسا گیا"، تو تنظیم اپنی مقامی حمایت سے محروم ہو گئی۔
سرفراز نے کہا، "مجھے یقین ہے کہ انہیں یہاں پاکستان میں بھرتی کے لیے بہت زیادہ مقامی حمایت نہیں مل رہی۔ حتیٰ کہ وہ خاصی رقم، جس کی پیشکش داعش کر رہی تھی، وہ بھی شدید کریک ڈاؤن کی وجہ سے تازہ دم جنگجوؤں کو نہ لبھا سکی۔
وسائل سکڑ گئے
تجزیہ کاروں کے مطابق، داعش، جو کہ اپنی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کے لیے تیل کی غیر قانونی فروخت، ساتھ ہی ساتھ تاوان، جرمانوں، بھتہ خوری اور لوٹ مار سے حاصل ہونے والے پیسے پر انحصار کرتی تھی، پاکستانی اور افغان حکومتوں کی جانب سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔
یونیورسٹی آف پشاور میں پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین، ڈاکٹر سید حسین شہید سہروردی نے کہا کہ دہشت گرد پاکستان میں بھرتی کرنے کے لیے تقریباً 800 ڈالر (112،456 روپے) کی پیشکش کرتے رہے ہیں مگر، دیگر اقدامات کے علاوہ، حکومت کی جانب سےمنی لانڈرنگ کے خلاف سخت کارروائینے پیسے کے غیر قانونی بہاؤ کو سست کر دیا ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان کے مکمل اطلاق کی کوششوں، جس کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے، کے نتیجے میں، دیگر بہت سے دہشت گرد گروہوں کی طرح، داعش پاکستان میں اپنی کارروائیاں روکنے جا رہی ہے۔"
یونیورسٹی آف پشاور کے ایک محقق اور پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے تدریسی عملے کے رکن، اسفندیار مروت نے کہا کہ داعش کی بھرتی کرنے اور انٹرنیٹ پر چندہ جمع کرنے کی کوششوں کے خلاف پاکستان کی سخت کارروائی دہشت گرد تنظیم کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ داعش بھرتی اور چندہ جمع کرنے کے لیے انٹرنیٹ کو استعمال کرنے کی ماہر ہے، "مگر جب سے یہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے سائبر کرائم کے حوالے سے سختی کر رہے ہیں، دہشت گرد تنظیم اپنی اس چراگاہ سے بھی محروم ہو گئی ہے۔"
پشاور کے مقامی دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "داعش کے ہمدردوں اور کارکنان نے کچھ عرصے کے لیے مساجد اور عوامی مقامات پر عطیات جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور مخیر حضرات سے چندے جمع کیے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "لیکن حکومت کے انتہائی سخت مؤقف نے انہیں اپنی مہمات چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔"
'کارروائیاں ختم' کرنا
خیبرپختونخوا میں سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس، سید اختر علی شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، اگرچہ ملک میں داعش کو شکست دینے کی کوششیں کافی پیچھے ہیں، لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا، "داعش کے خلاف مخبری کی بنیاد پر محدود کارروائیوں نے اسے بہت زیادہ حد تک غیر مؤثر کر دیا ہے -- حتیٰ کہ اس کے ہمدرد بھی اپنی کارروائیاں ختم کر چکے ہیں۔"
شاہ نے کہا کہ تاہم، یہ تعین کرنا "بہت قبل از وقت" ہو گا کہ داعش اب مزید ایک خطرہ نہیں ہے۔
Yh america aur isrrail k himayat yafta log thy jesy muslmano k safon main ghusa kr muslmano ka qatil aam kea gea
جوابتبصرے 2
مسلمان ممالک میں خونریزی اور ابتری پیدا کرنے کے لیے داعش کی کیا نظریاتی بنیادیں ہیں؟ یہ مقبوضہ علاقہ جات میں فلسطینیوں اور کشمیریوں کی آزادی کے لیے کیوں نہیں لڑتا؟ یہ کیوں پاکستانیوں سے ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے لیے خیراتی چندے اکٹھے کرنے کی توجیح پیش کرتا ہے یا ترٖغیب دیتا ہے؟
جوابتبصرے 2