اسلام آباد -- افغان طالبان کے بڑے رہنماؤں کے ایک گروپ کو جمعرات (3 اکتوبر) کو اسلام آباد پہنچنے پر پاکستانی حکام کی جانب سے پُرتپاک استقبال کیا گیا، جہاں وزیرِ خارجہ نے افغان امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی بات کی۔
وزارت کی جانب سے جاری کردہ فوٹیج میں دکھایا گیا کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور خفیہ ادارے کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے معانقوں اور مسکراہٹوں کے ساتھ طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر کا استقبال کیا، جنہوں نے آٹھ سال پاکستانی جیلوں میں گزارے تھے۔
پاکستان ان صرف تین ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا، اور اس کی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) جس کے حمید سربراہ ہیں، پر وسیع طور پر -- خصوصاً افغان حکومت کی جانب سے -- افغانستان میں خونریز عسکریت پسندی کی پشت پناہی کا شک کیا جاتا ہے۔
اسلام آباد کی جانب سے الزامات کی تردید
![پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ایک ویڈیو سے لیا گیا سکرین شاٹ جس میں طالبان کے نائب رہنماء ملا عبدالغنی برادر کو 3 اکتوبر کو اسلام آباد میں پاکستانی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ معانقہ کرتے دکھایا گیا ہے۔ [فائل]](/cnmi_pf/images/2019/10/03/20268-beradar_with_isis_chief-585_329.jpg)
پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ایک ویڈیو سے لیا گیا سکرین شاٹ جس میں طالبان کے نائب رہنماء ملا عبدالغنی برادر کو 3 اکتوبر کو اسلام آباد میں پاکستانی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ معانقہ کرتے دکھایا گیا ہے۔ [فائل]
![طالبان کی جانب سے پوسٹ کردہ ایک فوٹو جس میں اس کے گروہی وفد کو اعلیٰ سطحی پاکستانی حکام کے ساتھ 3 اکتوبر کو اسلام آباد میں ملاقات کرتے دکھایا گیا ہے۔ [فائل]](/cnmi_pf/images/2019/10/03/20269-talibanislamabad-585_329.jpg)
طالبان کی جانب سے پوسٹ کردہ ایک فوٹو جس میں اس کے گروہی وفد کو اعلیٰ سطحی پاکستانی حکام کے ساتھ 3 اکتوبر کو اسلام آباد میں ملاقات کرتے دکھایا گیا ہے۔ [فائل]
گزشتہ برسوں میں پاکستان قطر میں طالبان اور واشنگٹن کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کرنے میں مدد کر چکا ہے۔
امن مذاکرت کے آخری لمحات میں ستمبر کے پہلے ہفتے کے دوران کابل میں طالبان کی بمباریوں سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جس نے امریکی حکومت کو 8 ستمبر کے لیے طے شدہ اجلاس منسوخ کرنے کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا۔
طالبان، ایک شکستہ گروہ
پرتشدد واقعات کی طغٖیانی نے طالبان رہنماؤں کی جانب سے اختیار کردہ واضح حربے کو بے نقاب کر دیا ہے: مذاکرات کی میز پر افغان حکومت اور اس کے بین الاقوامی اتحادیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے گروہ کا عام افغان شہریوں کے جاری و ساری قتل کو استعمال کرنا۔
تاہم، آخرکار طالبان کے حربے غیر دانشمندانہ ثابت ہوئے، کیونکہ تقریباً سال بھر طویل امن مذاکرات ختم کرنے کے بعد سےطالبان رہنماء خود کو ایک کمزور حیثیت میں پایا ہے۔
شکستہ گروپ نے اس کے بعد سے اپنے غیر ملکی پشت پناہوں کی جانب سے مدد کا راستہ اپنا لیا ہے، پہلے روسکے ساتھ اور پھر ایران کے ساتھ۔
طالبان کے ایران کے دورے کے بعد، افغان شہریوں نے گروپ کے افغانستان میں ایرانی حکومت کے مفادات کے تحفظ کے وعدے کی مذمت کی جبکہ طالبان افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہیں۔
اس افراتفری نے طالبان کے اندر ہی بڑھتی ہوئی تقسیموں اور عدم اطمینان کو بے نقاب کیا ہے کیونکہ تنظیم کی سربراہی کے معاملے پر بڑھتے ہوئے تنازعہ اور اس کی سیاسی سمت نے پہلے سے ہی تقسیم شدہ تنظیم کے اندر مزید کیل ٹھونک دیا ہے،بقول ان طالبان رہنماؤں کے جنہوں نے کھل کر بولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بیان میں قریشی کی اس بات کا حوالہ دیا گیا کہ اب پاکستان میں، اسلام آباد چاہتا ہے کہ "افغانستان میں ایک پائیدار، دیرپا امن اور استحکام کے لیے ایک ہموار راستہ بنانے" کے لیے امن مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں۔
انہوں نے مزید کہا، "جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات واحد اور مثبت حل ہیں۔"
کابل مشکوک
البتہ، افغان حکومت طالبان رہنماؤں اور پاکستانی حکام کے درمیان واضح گرمجوشی پر مشکوک ہی رہی ہے۔
3 اکتوبر کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے کہا کہ افغانستان کی سربراہی میں، افغان حکومت کا منظورِ نظر امل عمل ہی دیرپا امن پر منتج ہو سکتا ہے۔
افغان حکومت میڈیا اور اطلاعات مرکز کی جانب سے کیے جانے والے ٹویٹ کے مطابق، صدیقی نے کہا، "جب تک پاکستانی سرزمین سے طالبان جیسے دہشت گرد گروہوں کو تربیت دینے اور انہیں مسلح کرنے کے مراکز چلتے رہیں گے افغانستان میں امن یا استحکام نہیں ہو گا۔"
انہوں نے مزید کہا، "افغانستان مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں اور طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کو تباہ کرے اور افغان عمل اور علاقائی سلامتی میں ایک مثبت کردار ادا کرے۔ وہ شرائط جن پر امن کے لیے ہمیشہ زور دیا جاتا رہا ہے وہ فساد کا خاتمہ اور افغان عوام کے خلاف طالبان کے حملوں کا خاتمہ ہیں۔"
آپ نے یک طرفہ باتیں کیے ہیں
جوابتبصرے 9
پاکستان افغان طالبان کے ساتھ امن مزاکرات میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے، اور افغان حکومت کو پاکستان پر یہ الزام نہیں لگانا چاہیئے کہ وہ طالبان کی پشت پناہی کرتا ہے، کیوں کہ پاکستان خود بھی دہشتگردوں کا شکار ہے اور یہ صورتِ حال ایسی نہیں کہ ماضی یا تاریخ کی بات کی جائے۔ آئیں صرف یہ امّید کریں کہ ایک دن امن قائم ہو گا۔
جواببے شک اپ نےبہترین بات کہ ڈی ہے اللہ کرے کہ امن آجائے ۔
جوابتبصرے 9
Bakwas
جوابتبصرے 9
یہ مضمون حقائق کے منافی اور جھوٹ پر مبنی ہے اور یقیناً اس مضمون کا لکھاری افغانستان میں دیرپا امن کی خواہش سے عاری نظر آتا ہے
جوابامن کبھی ایک دوسرے پر الزام تراشی سے نہیں آتا، بلکہ ایک دوسرے کو عزت دینے سے آتا ہے۔ ایک طرف افغان حکومت امن چاہتی ہے اور دوسری جانب وہ انہیں الزام دیتی ہے جو قیامِ امن میں بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں، کیوں کہ پاکستان کی دینا بھر اور بطورِ خاص افغانستان میں نہایت قدر ہے، کیوں کہ زیادہ تر افغانوں نے پاکستان میں اپنی زندگیاں گزاری ہیں اور وہ پاکستان کے نظریات کا احترام کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں، اور وہ اس امر کی پذیرائی کرتے ہیں کہ پاکستان مصالحت کرائے۔
جوابتبصرے 9
جہوٹ کا پلندہ ہے مضمون حقائق کے منافی رپورٹنگ کا شاندار نمونہ ہے
جوابتبصرے 9
Yar ye sb abhi baheed az qayas hae andoorny khana u.s apna or pakistan apna zor lga rahy haen dekhen jeet kis ki hoti hae
جوابتبصرے 9
جب طالبان چین روس ایران جا رہے تھے تو اس ٹائم آپ کو کوئی منافقت نظر نہیں ای اور امریکن بومباری سے ایک ملین سے زیادہ لوگ شہید ہوی یہ افغان حکومت ایک پپٹ ہے اسکی کوئی ویلیو نہیں یہ زہر اگلا کر تیری سوچ نظر آ رہی ہے جو انتہائی گھٹیا ہے
جوابتبصرے 9