تعلیم

درہ آدم خیل میں نئی لائبریری ظاہر کرتی ہے کہ کیسے نئی نسل بندوقوں سے نہیں کتابوں سے پیار کرتی ہے

از جاوید خان

6 جولائی کو درہ آدم خیل کے دو مکین پاکستان میں بندوق سازی کے دو مرکزی شہروں میں سے ایک شہر میں حال ہی میں تعمیر ہونے والی لائبریری میں کتابیں پڑھتے ہوئے۔ [جاوید خان]

6 جولائی کو درہ آدم خیل کے دو مکین پاکستان میں بندوق سازی کے دو مرکزی شہروں میں سے ایک شہر میں حال ہی میں تعمیر ہونے والی لائبریری میں کتابیں پڑھتے ہوئے۔ [جاوید خان]

پشاور -- پشاور کے قریب درہ آدم خیل میں ایک چھوٹی سی لائبریری فساد کو قصۂ پارینہ بنانے میں مکینوں کی مدد کر رہی ہے۔

لائبریری، جو اپنی بندوقوں کی بہت بڑی مارکیٹ کی وجہ سے مشہور شہر میں واقع ہے، اکتوبر 2018 میں درہ آدم خیل بازار کے وسط میں کھلی تھی۔ یہاں، دکانوں پر چھوٹے ریوالوروں سے لے کر کلاشنکوفوں تک ہر قسم کی بندوقیں بکتی ہیں۔

تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے بھی ماضی میں اپنا دوسرا ہیڈکوارٹرز اسی علاقے میں قائم کیا تھا جہاں سے یہ پشاور اور دیگر شہروں پر پُرتشدد حملے کیا کرتی تھی۔

نئی لائبریری بچوں کے ایک مقامی پارک کے قریب واقع ہے اس لیے زیادہ صارفین اس تک آسانی سے رسائی کر سکتے ہیں۔

راج محمد، جس شخص نے لائبریری قائم کی ہے، نے ایک انٹرویو میں کہا، "اپنے شہر میں لائبریری قائم کرنے کا واحد مقصد ہے بندوقیں نہیں، کتابیں۔"

محمد، جو اپنی عمر کے 30 کے عشرے میں ہیں، نے ایک نجی یونیورسٹی سے اُردو ادب میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی اور ایک مقامی کالج میں پڑھاتے ہیں۔

ماضی میں وہ لائبریری کے تمام مالی امور خود سنبھالتے اور بل خود ادا کرتے تھے تاوقتیکہ مقامی عمائدین اور حکام نے نئی عمارت تعمیر کی اور لائبریری ان کے حوالے کر دی۔ مزدوروں نے بتیوں اور پنکھوں کے لیے بجلی فراہم کرنے کے لیے لائبریری کے چھت پر شمسی توانائی کا نظام نصب کر دیا۔

محمد نے کہا، "میں نے لائبریری اپنے علاقے کا تشخص بہتر کرنے اور دنیا کو یہ حقیقت بتانے کے لیے قائم کی ہے کہ ہمارے لوگ کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں اور مزید تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر لائبریری میں آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

خواتین قارئین

بہت سے سکول، خصوصاً لڑکیوں کے اسکولوں کو، حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کی جانب سے بموں سے اڑایا گیا جو ہزاروںبچوں کو سکول جانے اور تعلیم حاصل کرنےسے روکنا چاہتے تھے۔

آج، پاکستانی نہ صرف اسکولوں اور کالجوں میں واپس جا رہے ہیں بلکہ ان کی مزید کتابیں پڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی بھی کی جا رہی ہے۔

درہ آدم خیل میں واقع لائبریری میں مختلف موضوعات، اردو سے لے کر پشتو اور انگریزی ادب تک، زراعت سے لے کر مذہب، سیاست اور امورِ نوجوانان تک تقریباً 2،500 کتابیں ہیں۔ ارکان لائبریری سے کتابیں مستعار لینے کے لیے ایک واجبی سے فیس ادا کرتے ہیں، بہت سی خواتین جنہیں دہشت گردوں نے سکول جانے سے روک دیا تھا نئے ارکان میں شامل ہیں۔

محمد نے کہا، "لائبریری کے کُل 250 ارکان میں سے تقریباً 30 خواتین ہیں، جو کہ بہت حوصلہ افزاء بات ہے۔چونکہ مقامی ثقافت اور روایات کی وجہ سے بعض اوقات خواتین لائبریری نہیں آ سکتیںان کی بیٹی، شفاء راج، ان کے گھروں یا کالج میں کتابیں پہنچا دیتی ہے۔

11 سالہ شفاء نے کہا، "میں طالبات سے ایک فہرست لیتی ہوں" اور "اگلے روز مطلوبہ کتابیں" انہیں فراہم کر دیتی ہوں۔ وہ مقامی ادارے میں چھٹی کلاس کی طالبہ ہے۔

کچھ ارکان لائبریری کے سوشل میڈیا صفحات پر بھی کتابیں منتخب کرتے ہیں جو انہیں اگلے روز ان کے گھروں میں مل جاتی ہیں۔

علاقے کے مکین نیز قریبی قصبوں کے مکین اس پہل کاری کو بہت سراہتے ہیں، خصوصاً اس لیے کیونکہ شہر کبھی صرف دہشت گرد حملوں اور اپنی بندوقوں کی مارکیٹ کی وجہ سے مشہور تھا۔

درہ آدم خیل کے ایک سابقہ مکین جو پشاور میں رہتے ہیں، راحت امیر آفریدی نے کہا، "درہ آدم خیل جیسے علاقے میں لائبریری کو ہونا شہر کی پوری آبادی اور قریبی دیہات کے لیے ایک نعمت ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اگرچہ درہ آدم خیل کے مکینوں نے برسوں تک عسکریت پسندی اور تشدد دیکھا ہے، کوئی بھی انہیں کتابوں سے محبت کرنے سے نہیں روک سکا۔

آفریدی نے کہا، "مقامی نوجوان کی جانب سے یہ اقدام بتاتا ہے کہ کیسے نئی نسل بندوقوں سے نہیں کتابوں سے محبت کرتی ہے -- حتیٰ کہ ایک ایسے شہر میں جو ہر قسم کے ہتھیار تیار کرتا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

شکریہ ۔۔۔ درہ آدم خیل لائبریری پر رپورٹ پیش کرنے کا ۔۔۔ راج محمد آفریدی بانی لائبریری

جواب

یہ ایک شاندار خبر ہے

جواب