غلانائی، ضلع مہمند -- حکومتِ پاکستان نے قبائلی بچوں کو تعلیم دینے اور ان کی شرح خواندگی میں اضافہ کرنے کے لیے غازی بیگ، ضلع مہمند میں مہمند ماڈل سکول قائم کیا ہے۔
سکول، جس کی تعمیر اگست میں مکمل ہوئی تھی اور اس نے ستمبر میں کام کرنا شروع کر دیا تھا، طالبان کی جدید تعلیم کی مخالفت اور سکولوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کا جواب بھی ہے۔
سنہ 2013 سے قبل دہشت گردی کے بدترین برسوں میں، ضلع مہمند کے عسکریت پسندوں نے ایک کالج سمیت، 120 سے زائد تعلیمی اداروں کو اڑا دیا تھا۔
مخلوط تعلیم کا سکول، مہمند میں اپنی نوعیت کا پہلا سکول، سکول کے تقریباً 500 طلباء اور طالبات کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔
سکول کے صدر، عنایت اللہ نے کہا، "480 طلباء و طالبات کو داخل کرنا ایک نئی شاخ کا آغاز ہے۔ یہ مہمند کے علاقے میں تعلیم کو بہتر بنانے میں بہت زیادہ مدد کرے گا، اور یہ طلباء و طالبات اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مثالی نمونہ بنیں گے۔"
ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن، ضبط خان نے کہا، "میں بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ میرا بیٹا بہترین سکول میں پڑھے گا۔"
ان کا کہنا تھا، "یہاں ہر بچہ پڑھنے کا شوقین ہے، مگر تعلیمی اداروں کی قلت کی وجہ سے، وہ قبائلی علاقہ جات میں مفت تعلیم نہیں حاصل کر سکتے۔"
سکول 25 ایکڑ رقبے پر قائم کیا گیا تھا اور اس میں ایک ہر لحاظ سے مکمل سائنس لیبارٹری اور لائبریری شامل ہیں۔ سکول میں 16 استاد اور کنڈرگارٹن سے پانچویں جماعت تک کے لیے چار استانیاں ہیں۔
سکول کوئی ٹیوشن فیس وصول نہیں کرتا اور مفت کتابیں جاری کرتا ہے۔
ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی عمائد، ملک اورنگزیب نے کہا،"ایسے معیاری تعلیمی ادارے ہماری مستقبل کی نسل کا بنیادی حق ہیں۔ہم عسکریت پسندی کا مقابلہ صرف تعلیم کے ساتھ ہی کر سکتے ہیں۔
leken afsos se kehna perta hi k elaqi k zamendaro ko abi tak zamen ka payment nahi howa
جوابتبصرے 1