میڈیا

داعش کے میڈیا آؤٹلٹس جو کبھی طاقت ور ہوا کرتے تھے اب درجہٴ دوئم پر آ گئے ہیں

قاہرہ سے ولید ابوالخیر

13 دسمبر کو ٹیلی گرام پر داعش کی جانب سے شائع کی گئی ایک تصویر میں شام میں ایک سمارٹ فون کے گرد جمع اس کے جنگجوؤں کا ایک گروہ دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

13 دسمبر کو ٹیلی گرام پر داعش کی جانب سے شائع کی گئی ایک تصویر میں شام میں ایک سمارٹ فون کے گرد جمع اس کے جنگجوؤں کا ایک گروہ دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

داعش "دولتِ اسلامیہٴ" کے خلاف کھڑے کیے گئے عسکری، نظریاتی اور سائیبر محاذوں نے اس گروہ کی میڈیا سے متعلق استعداد کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے، کیوں کہ تازہ ترین اشاعتوں اور نشریوں کا ہجم نمایاں طور پر کم ہو گیا ہے۔

مصر میں ابن الولید سٹڈیز اینڈ فیلڈ ریسرچ سنٹر کے نئے شعبہٴ میڈیا کے ڈائریکٹر مازن ذکی نے کہا، "داعش کی میڈیا مشین ایک صریح اور نمایاں زوال میں ہے، جس کی عکاسی ماضی میں اس گروہ کی جانب سے استعمال ہونے والے تمام میڈیا پلیٹ فارمز میں ہوتی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اس میں سوشل میڈیا سائیٹس اور آن لائن فورم، جن سے یہ اپنے سمعی و بصری مواد کے ساتھ ساتھ ہفتہ وار یا ماہانہ شائع ہونے والے رسالے بھی شائع کرتا تھا۔

انہوں نے کہا، "اکثر تو ایک برس سے زائد عرصہ سے غائب ہیں، جن میں دابق رسالہ اور البیان اخبار شامل ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ داعش الفرقان فاؤنڈیشن، عمق، العقاب آن لائن فورم اور منتدیات الملاحم والفتنہ فورم سے اشاعت کرتی ہے جو کہ اب خال ہی ہیں۔

داعش کی جانب سے 12 دسمبر کو ٹیلی گرام پر جاری کی گئی ایک غیر معیاری تصویر میں حاجن، شام میں اس کے آخری قیام کے دوران ایک عارضی گاڑی میں اس کا ایک جنگجو دکھایا گیا ہے۔ قبل ازاں یہ گروہ بڑے پیمانے پر اپنے معرکوں کی ویڈیو بنانے کی قابلیت رکھتا تھا، لیکن اب یہ بڑی حد تک کم ہو کر غیر معیاری تصویروں تک محدود ہو گئی ہے. [فائل]

داعش کی جانب سے 12 دسمبر کو ٹیلی گرام پر جاری کی گئی ایک غیر معیاری تصویر میں حاجن، شام میں اس کے آخری قیام کے دوران ایک عارضی گاڑی میں اس کا ایک جنگجو دکھایا گیا ہے۔ قبل ازاں یہ گروہ بڑے پیمانے پر اپنے معرکوں کی ویڈیو بنانے کی قابلیت رکھتا تھا، لیکن اب یہ بڑی حد تک کم ہو کر غیر معیاری تصویروں تک محدود ہو گئی ہے. [فائل]

انہوں نے کہا کہ یہ آؤٹلٹس مسلسل اپنے آئی پی ایڈریس تبدیل کرتے رہتے ہیں تاکہ بند یا بلاک کیے جانے سے بچے رہیں، "ایسی سائیٹس پر بین الاقوامی کریک ڈاؤن کی وجہ سے یہ بھی آسان نہیں۔"

ذکی نے کہا کہ داعش کا پراپیگنڈا مواد شائع کرنے والے ہزاروں اصلی یا جعلی اکاؤنٹس کو باقاعدہ طور پر مٹانے یا بلاک کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مرہونِ منّت آن لائن مواد کی نگرانی کرنے کے لیے سائبر انسدادِ دہشت کی کاوشیں بارآورثابت ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا، "بلا شبہ اس سے بھرتی کے اس وسیع نیٹ ورک پر بری طرح سے اثر پڑا ہے جو کبھی داعش کے پاس تھا، اس کی عکاسی بھرتی کے آپریشنز اور نئے رنگروٹوں کی تعداد میں قابلِ ذکر کمی سے ہوتی ہے۔"

’مکمل زوال‘

لندن کے کنگز کالج میں کئی برسوں سے داعش مواصلات کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک محقق چارلی ونٹر نے رواں برس کے اوائل میں کہا کہ 2015 میں جب داعش عراق اور شام میں تقریباً سترہ ملین لوگوں پر حکومت کر رہی تھی، اس کے پروپیگنڈا کرنے والے مغربی افریقہ سے افغانستان تک 38 مختلف میڈیا دفاتر سے مواد پیدا کر رہے تھے۔

لیکن اب ان آؤٹلٹس میں سے اکثر خاموش ہو چکے ہیں۔

جامعہ قاہرہ کے شعبہٴ میڈیا سے تعلق رکھنے والے پروفیسر حسن افیفی نے کہا کہ متعدد عوامل داعش کی میڈیا مشین کے زوال کا باعث بنے،جن میں سے پہلا عراق اور شام میں داعش کے زیرِ انتظام علاقہٴ عملداری میں کمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا نتیجہ میڈیا مواد کے فقدان کی صورت میں نکلا، جیسا کہ میدان میں اپنی جوانمردی ظاہر کرنے اور نئے جنگجو بھرتی کرنے کے لیے اس گروہ کی جانب سے دی جانے والی مسلسل اپ ڈیٹس۔

افیفی نے "اس گروہ کی دروٖغ گوئی کی قلعی کھولنے اور اس کی جانب سے نوجوانوں کی دماغ شوئی کے لیے کیے جانے والے [دعووں] کو جھٹلانے والے معلوماتی مواد سے بھرے آن لائن فورمز اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ داعش کے خلاف نظریاتی جنگ بھی بارآور ثابت ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ داعش کی میڈیا مشین کی کمزوری کا واضح ترین اشاریہ "ان کی جانب سے حالیہ عرصہ میں چند اور خال نشریوں کا معیار اور خاکہ بندی ہے۔"

انہوں نے کہا، "جیسا کہ ویڈیو نشریے خال ہیں اور جو نشر کیے گئے ہیں ان کا معیار کم ہے، [ان نشریوں کا] قریبی معائنہ ظاہر کرتا ہے کہ اس گروہ نے وہ زورِ حرکت اور صحت کھو دی ہے جس کا وہ کبھی حامل تھا۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ان بیانات کے اجراء میں تاخیر اور عربی اور انگریزی، ہر دو میں گرائمر اور املاء کی غلطیاں بھی قابلِ ذکر ہیں، جن میں داعش دہشتگردانہ اقدامات کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ اس امر کی علامت ہے کہ سابق پیشہ وران کا عملہ اب فعال نہیں ہے اور یہ کہ داعش نے اپنا میڈیا مواد پیدا کرنے کے لیے ناتجربہ کار افراد کے استعمال کا سہارا لیا ہے۔"

داعش پراپیگنڈا مراکز کا نقصان

مصری فوج سے سبکدوش ایک ماہرِ سلامتی اور عسکری تجزیہ کار میجر جنرل عبدالکریم احمد نے کہا کہ شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر اس گروہ کے قبضہ نے اسے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس میڈیا سنٹرز تشکیل دینے کے قابل بنایا۔

انہوں نے کہا، داعش "نے اپنی فتح اور اپنے زیرِ تسلط علاقوں کی تشہیر کرنے والے پراپیگنڈا مواد کی بشیش مقدار سے سائیبر سپیس کو بھر دیا۔"

انہوں نے کہا کہ اس سے اس کا اثرورسوخ پھیلانے اور دنیا بھر سے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی اس کی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد ملی۔

احمد نے کہا، "تاہم اب2015 میں اس گروہ کے زیرِ تسلط علاقوں کے ہجم کے کم ہو کر صرف 2 فیصد رہ جانےکے بعد صورتِ حال تبدیل ہوگئی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ داعش کو اس کے میڈیا سنٹرز سے الگ کر دیا گیا ہے، جس سے اس کی تکنیکی صلاحیتیں کمزور ہو گئی ہیں۔

انہوں نے کہا، "اس گروہ کی شکستوں کی خبریں، اس کے گزشتہ قبضہ کے علاقوں سے اس کے عناصر کے فرار، اور دنیا بھر میں ان کا تعاقب اب بڑی بین الاقوامی شہ سرخیاں ہیں۔"

احمد نے کہا کہ یہ انسدادِ پراپیگنڈا مواد بن چکا ہے جس کا ردِّ عمل دینے سے داعش قاصر ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500