سلامتی

ملٹری آپریشنز، طالبان کے ساتھ جھڑپوں نے افغانستان میں داعش کے پھیلاؤ کو روک دیا

جاوید محمود

"دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے جنگجو، اس سال کے آغاز میں جوزجان میں طالبان کے ارکان پر فائرنگ کر رہے ہیں۔ ]فائل[

"دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے جنگجو، اس سال کے آغاز میں جوزجان میں طالبان کے ارکان پر فائرنگ کر رہے ہیں۔ ]فائل[

اسلام آباد -- مشاہدین کا کہنا ہے کہ طالبان اور "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے درمیان لڑائی اور اس کے ساتھ ہی افعانستان-پاکستان کی سرحد کے دونوں طرف سے ہی بڑھتے ہوئے دباؤ نے داعش کے پھیلاؤ کو روک دیا ہے۔

سیکورٹی کے سینئر تجزیہ نگار برگیڈیر (ریٹائرڈ) اسحاق احمد خٹک نے 18 اکتوبر کو کہا کہ دونوں دہشت گرد گروہوں کے درمیان جھڑپیں ایک سال سے زیادہ کے عرصے سے جاری ہیں مگر گزشتہ چھہ ہفتوں سے، خوگیانی ڈسٹرکٹ کے علاقے وزیر تنگی میں تیزی آ گئی ہے۔

طالبان اور داعش علاقے میں اسٹریٹجک کنٹرول کے لیے جنگ کر رہے ہیں اور دونوں فریقین خود کو پیش آنے والی ہلاکتوں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات پاکستان ہاوس جو کہ ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے خودمختار پالیسی انسٹی ٹیوٹ، جس کا اسلام آباد میں بھی ایک دفتر ہے، کے ڈائریکٹر آف آپریشنز خٹک نے بتائی۔

داعش کا پھیلاؤ رک گیا

خٹک نے پاکستانی انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی اسلام آباد میں ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ ایک غلط فہمی ہے کہ داعش افغانستان اور علاقائی ممالک میں پھیل رہی ہے"۔

افغان کمانڈوز، 3 جنوری کو ننگرہار صوبہ کی آچین ڈسٹرکٹ میں داعش کے خلاف امریکہ-افغان ملٹری آپریشن کے دوران گشت کر رہے ہیں۔ ]نور اللہ شیرزادہ/ اے ایف پی[

افغان کمانڈوز، 3 جنوری کو ننگرہار صوبہ کی آچین ڈسٹرکٹ میں داعش کے خلاف امریکہ-افغان ملٹری آپریشن کے دوران گشت کر رہے ہیں۔ ]نور اللہ شیرزادہ/ اے ایف پی[

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے مینجنگ ڈائریکٹر، عبد اللہ (بائیں) 18 اکتوبر کو اسلام آباد میں، افغانستان اور علاقے میں داعش پر ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کر رہے ہیں۔ ]جاوید محمود[

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے مینجنگ ڈائریکٹر، عبد اللہ (بائیں) 18 اکتوبر کو اسلام آباد میں، افغانستان اور علاقے میں داعش پر ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کر رہے ہیں۔ ]جاوید محمود[

اتحادی فضائی حملوں نے افغانستان میں داعش کے بہت سے اہم راہنماؤں اور گروہ کے عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے جس سے اس بین الاقوامی دہشت گرد گروہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے"۔

خٹک نے کہا کہ امریکہ نے اپنا سب سے بڑا متنازعہ بم، جی بی یو -43/بی میسیو آرڈیننس ایر بلاسٹ (ایم او اے بی) جسے "تمام بموں کی ماں" کی عرفیت دی گئی ہے، آچین ڈسٹرکٹ، ننگر ہار صوبہ میں 13 اپریل 2017 کو داعش کے ٹھکانے پر گرایا تھا"۔

انہوں نے کہا کہ اس دھماکے نے نہ صرف داعش کے درجنوں جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا بلکہ علاقےپر اس کے کنٹرول کا خاتمہ بھی کر دیا ۔

خٹک نے بتایا کہ ایک فضائی حملے نے افغانستان میں داعش کے راہنما ابو سعد ارہابی المعروف ابو سید اورکزئی کو اپنے مرحوم پیش رو، عبدل حسیب سے صرف تین میہنے پہلے اقدار حاصل کرنے کے بعد، 25 اگست کو ہلاک کر دیا۔

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ جنوری سے اکتوبر کے وسط تک، داعش کے درجنوں جنگجو افغانستان میں ہونے والے مختلف فضائی حملوں میں اپنے راہنماؤں کے ساتھ ہلاک ہوئے ہیں، کہا کہ اس سے پہلے 6 اپریل کو فریاب صوبہ میں ہونے والے ایک فضائی حملے میں قاری حکمت اللہ جو کہ شمالی افغانستان میں داعش کے اعلی کمانڈر تھے، کو ہلاک کر دیا۔

دریں اثنا، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والے ملٹری آپریشنز نے داعش کو پاکستان میں گھس آنے سے روکے رکھا ہے۔

خطرہ بدستور موجود

پی آئی سی ایس ایس کے مینجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان نے خٹک سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ داعش کی وسعت میں دہشت گرد گروہوں کے اعلی راہنماؤں کی ہلاکتوں اور طالبان کے ساتھ علاقے کے لیے ہونے والی لڑائیوں نے رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔

انہوں نے اس سال داعش کی طرف سے ہونے والے بڑے حملوں میں اضافے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تاہم، داعش نے اپنی توجہ افغانستان میں دہشت گردانہ حملے منعقد کرنے پر منتقل کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گروہ ابھی بھی افغانستان کے کم از کم آٹھ صوبوں میں موجودگی رکھتا ہے جس میں دوسروں کے علاوہ بدخشاں، جواز جان، فریاب، ننگرہار، کنڑ اور نورستان شامل ہیں۔

خان نے متنبہ کیا کہ شام اور عراق سے مزید عسکریت پسندوں کے آنے سے گروہ کی آپریشنل صلاحیتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان اور سیکورٹی کی علاقائی ایجنسیوں دونوں پر زور دیا کہ وہ علاقے میں گروہ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بر وقت اقدامات کریں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

جنگ کی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ ہر پر امن شئے کو خراب کر دیتی ہے

جواب

نہیں، بالکل نہیں

جواب