سلامتی

داعش کا پراپیگنڈہ خلافت کے دعووں سے ہٹ رہا ہے

از ولید ابولخیر بمقام قاہرہ

داعش کی ایک حالیہ ویڈیو جو "محترم عظمت" کہلاتی کا ایک سکرین شارٹ جس میں گروہ کے ارکان کو الراقا، شام کے ایک چوراہے پر ایک آدمی کو پھانسی دینے سے قبل رسیوں سے باندھتے دکھایا گیا ہے۔ داعش کے اس طرح کے پراپیگنڈے میں ایک اسلامی 'خلافت' قائم کرنے کے دعووں سے نمایاں انحراف دیکھنے میں آیا ہے اور اس کی بجائے اس نے تشدد پر زیادہ توجہ مرکوز کر لی ہے۔

داعش کی ایک حالیہ ویڈیو جو "محترم عظمت" کہلاتی کا ایک سکرین شارٹ جس میں گروہ کے ارکان کو الراقا، شام کے ایک چوراہے پر ایک آدمی کو پھانسی دینے سے قبل رسیوں سے باندھتے دکھایا گیا ہے۔ داعش کے اس طرح کے پراپیگنڈے میں ایک اسلامی 'خلافت' قائم کرنے کے دعووں سے نمایاں انحراف دیکھنے میں آیا ہے اور اس کی بجائے اس نے تشدد پر زیادہ توجہ مرکوز کر لی ہے۔

تجزیہ کاروں نے دیارونا کو بتایا ہے کہ "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کی میڈیا ٹیم کے کلیدی ارکان کے مارے جانے اور شام کے شہر دابقہ میں گروہ کی علامتی شکست کی وجہ سے اس کی پراپیگنڈہ مشین رو بہ زوال ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ معاملات کی نوعیت کا داعش کی نئی جنگجو بھرتی کرنے کی کوششوں پر نمایاں منفی اثر پڑا ہے۔

ویسٹ پوائنٹ کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مرکز کی جانب سے ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، داعش کی پراپیگنڈہ کوششیں، جنہوں نے 30،000 سے زائد غیر ملکی جنگجوؤں کو شام اور عراق کی طرف راغب ہونے میں مدد دی تھی، عسکری دباؤ کے تحت انتہائی کم ہو چکی ہیں۔

نیویارک ٹائمز نے 10 اکتوبر کو تحقیق پر اپنی رپورٹ میں داعش کو ایک نام نہاد 'خلافت' کہتے ہوئے کہا کہ محققین کو پتہ چلا ہے کہ "ایک عملی ریاست دکھانے والی مطبوعات اور سوشل میڈیا کے اظہار سے حیرت انگیز تبدیلی" واقع ہوئی ہے۔

اخبار نے کہا کہ داعش جو دعویٰ کرتی ہے کہ یہ ایک نئی خلافت قائم کر رہی ہے "روز بروز فرسودہ ہوتا جا رہا ہے۔"

داعش کے پراپیگنڈہ کو سبوتاژ کرنا

عسکری تجزیہ کار اور ریٹائرڈ مصری فوجی افسر میجر جنرل عبدالکریم احمد نے کہا کہ داعش کے کلیدی اہداف پر عسکری حملوں اور اس کی طاقتور میڈیا مشین کے زوال کے درمیان تعلق "بہت مضبوط" ہے۔

انہوں نے دیارونا کو بتایا، "ان حملوں سے، داعش کی جانب سے سنہ 2014 سے کیا جانے والا پراپیگنڈہ، اور جس کے ذریعے یہ پوری دنیا سے جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد کو بھرتی کرنے کے قابل ہوئی تھی، سبوتاژ کر دیا گیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اپنے پراپیگنڈے کے ذریعے، داعش نے خود کو ایک ناقابلِ تسخیر فوج ظہار کر رکھا تھا اور اپنی نام نہاد "اسلامی خلافت" کے قیام کی ڈینگیں ماری تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ان دعووں کا نمایاں انہدام داعش کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے، کیونکہ اب یہ مزید نئے بھرتی ہونے والوں کو لبھانے کے لیے ان پراپیگنڈہ حربوں میں پناہ لینے کے قابل نہیں ہو گی۔

احمد نے کہا، "بین الاقوامی اتحادیوں کی کمان داعش کے ان اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی بہت خواہشمند تھی جنہیں اس کے آن لائن پراپیگنڈہ کی ہدایتکاری کا کام سونپا گیا تھا۔"

These یہ حملے داعش کے کئی عناصر کو ختم کرنے میں کامیاب رہے ہیں جو اس کی میڈیا مشین چلانے کے لیے اہم تھے، خصوصاً وائل عدل حسن سلام الفیاد، جس کے بارے میں گروہ نے 10 اکتوبر کے بیان میں تسلیم کیا تھا کہ وہ مارا گیا ہے۔

The داعش کے ترجمان ابو محمد العدنانی، جو بیرونِ ملک کارروائیوں کا انچارج تھا، کی ہلاکت کا اعلان بھی 30 اگست کو کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ داعش اپنے آغاز سے ہی ان عناصر پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھی۔

احمد نے کہا کہ داعش کے عناصر کی صفوں کے لیے، کلیدی رہنماؤں کو نشانہ بنانا اور ہلاک کرنا ان پر ظاہر کرتا ہے کہ انہیں بھی کسی بھی وقت مارا جا سکتا ہے، جس کا بلاشبہ گروہ کی بھرتی اور قیام پر ایک تباہ کن اثر ہوا ہے۔

جوابی پراپیگنڈہ کا کردار

مصر کے ابن الولید سٹڈیز اینڈ فیلڈ ریسرچ سنٹر پر نئے میڈیا شعبے کے ڈائریکٹر مازن زکی نے کہا، "داعش کی میڈیا صلاحیتیں جو یہ بھرتی کے لیے استعمال کرتا تھا کو کمزور کرنے میں، عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ، جوابی پراپیگنڈہ نے بھی ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔"

انہوں نے دیارونا کو بتایا، "گروہ کی جانب سے پراپیگنڈہ اور اس کے فروغ دیئے گئے جھوٹوں کو کمزور اور فاش کرنا اس کے خلاف لڑنے کے لیے ضروری ہے اور عسکری کارروائیوں میں یکساں [اہمیت کا حامل] ہے۔"

جوابی پراپیگنڈہ داعش کے ان نظریات کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے لازماً جاری رہنا چاہیئے، جو اس نے اپنے زیرِ تسلط علاقوں اور پوری دنیا کے نوجوانوں کے ذہنوں میں پختہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کوششوں کا مرکزِ نگاہ داعش کے عسکری نقصانات ہونا چاہیئے، داعش کے بارے میں سچائی عیاں کرتے ہوئے اور ان جرائم اور مظالم کو ننگا کرتے ہوئے جن کا اس نے ارتکاب کیا ہے، اور عرب اور اسلامی ممالک میں جائز مذہبی حکام کے کام کی حمایت ہونی چاہیئے۔

داعش کی جانب سے مذہب کا استحصال

جامعہ الازہر کے عالم شیخ عبدالمنیم محمد، مصر کے المادی میں النور مسجد کے امام نے کہا کہ سنہ 2014 میں اپنے آغاز سے، داعش نے اپنے حملوں کو "کفار کے خلاف جنگ" کے طور پر ظاہر کیا ہے۔

انہوں نے دیارونا کو بتایا کہ اس نے ایسا "ایسے عناصر کو بھرتی کرنے اور ایک ایسی برادری بنانے کے لیے کیا ہے جو صرف اسی کے ساتھ وفادار ہو۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس فرقہ پرستی اور مذہبی عسکریت پسندی سے سنجیدگی کے ساتھ نہ نمٹا جاتا تو اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے تھے، کیونکہ انسانی نفسیاتی کیفیت جنگ کے وقتوں میں اس سے اندھا دھند کام کروانے کا سبب بن سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک خصوصی صورتحال ہے اگر "وہ معلومات جو وہ وصول کرتا ہے اسے مذہبی رنگ، غلط دینی تعلیمات اور نفرت اور وجود کو خطرے کے احساس کے ساتھ ملا دیا جائے۔"

محمد نے کہا، "داعش اس تصور کر فروغ دیتی ہے کہ پوری دنیا اس کے خلاف ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ اس سے اس کے "خلافت" کا پراپیگنڈہ نکالا گیا ہے، "جو ان لوگوں کو پھانس سکتا ہے جن کا علم محدود ہے یا دینی سائنسز کا محدود علم رکھتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

is nam nehad alsaud aur amrica kay paida kerda yazidi nasal jis ka taluq islam ku badnam karnay kay elawa kuch nahi hay is lashkari per aur is kay chahnay waloon per 100 dafa lanat baijtay aur taba hunay ki dua kartay hany.

جواب