دہشتگردی

داعش خراسان کی نئی ویڈیو: بچوں کے ہاتھوں بچوں کا قتل

سلیمان

7 اور 12 برس کے درمیان کی عمر کے دو لڑکے 'دولتِ اسلامیۂ' (داعش) خراسان شاخ کی جاری کردہ پراپیگنڈا ویڈیو میں دو دیگر بچوں کو قتل کرتے دکھائے گئے۔ [فائل]

7 اور 12 برس کے درمیان کی عمر کے دو لڑکے 'دولتِ اسلامیۂ' (داعش) خراسان شاخ کی جاری کردہ پراپیگنڈا ویڈیو میں دو دیگر بچوں کو قتل کرتے دکھائے گئے۔ [فائل]

کابل — حال ہی میں افغانستان اور پاکستان میں کاروائیاں کرنے والی ”دولتِ اسلامیۂ“ (داعش) خراسان شاخ اس وقت نئی پستیوں میں گر گئی جب اس نے افغانستان میں کسی مخفی مقام سے ایک ویڈیو جاری کی، جس میں دکھایا گیا ہے کہ بچے بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔

داعش کے یہ قاتل 7 اور 12 برس کی عمر کے درمیان محسوس ہوتے ہیں۔ وہ اپنے قیدیوں کے پیچھے جھکے کھڑے ہیں جو کہ اس نارنجی رنگ کے جَستی لباس میں ملبوس ہیں جو عام طور پر داعش اپنے قیدیوں کو پہناتی ہے۔

بندوقیں لہراتے ہوئے یہ قاتل قیدیوں کو قریب سے گولیاں مارنے سے قبل ان کے سروں کو پیچھے کو جھٹکا دیتے ہیں۔

10 منٹ کی اس ویڈیو میں ایک بعد کے منطر میں فوجی لباس میں ملبوس ایک اور بچہ اپنے سامنے جھکے ایک شخص پر بندوق تانے ہوئے ہے۔ ویسی ہی خاکی وردی میں ملبوس ایک شخص قتل کی نگرانی کر رہا ہے۔

ویڈیو میں داعش کے دو بچے ارکان قتل کی تیاری کر رہے ہیں۔ مشاہدین کا کہنا ہے کہ داعش عناصر بچوں کی دماغ شوئی کر کے ان سے قتل، خود کش حملے اور دیگر دہشتگردانہ کاروائیاں کروانے کی غرض سے انہیں اغوا یا زبردستی اور ڈرا کر بھرتی کرتے ہیں۔ [فائل]

ویڈیو میں داعش کے دو بچے ارکان قتل کی تیاری کر رہے ہیں۔ مشاہدین کا کہنا ہے کہ داعش عناصر بچوں کی دماغ شوئی کر کے ان سے قتل، خود کش حملے اور دیگر دہشتگردانہ کاروائیاں کروانے کی غرض سے انہیں اغوا یا زبردستی اور ڈرا کر بھرتی کرتے ہیں۔ [فائل]

داعش کی اس 10 منٹ کی پراپیگنڈا ویڈیو میں ایسے متعدد مناظر شامل ہیں جن میں بچے بندوقیں لہرا رہے ہیں اور داعش کے قیدیوں کو گولیاں مار رہے ہیں۔ [فائل]

داعش کی اس 10 منٹ کی پراپیگنڈا ویڈیو میں ایسے متعدد مناظر شامل ہیں جن میں بچے بندوقیں لہرا رہے ہیں اور داعش کے قیدیوں کو گولیاں مار رہے ہیں۔ [فائل]

اسی ویڈیو میں بالغ ارکان قیدیوں کو گولیاں مارنے کی تیاری کرتے دکھائے گئے ہیں۔ مشاہدین کا کہنا ہے کہ جیسا کہ داعش روزانہ کی بنیادوں پر افغانستان میں علاقہ اور لڑنے والوں سے ہاتھ دھو رہی ہے، یہ ویڈیو طاقت کی کوشش اور خوف پیدا کرنے کی ایک مایوسی سے بھری کوشش ہے۔ [فائل]

اسی ویڈیو میں بالغ ارکان قیدیوں کو گولیاں مارنے کی تیاری کرتے دکھائے گئے ہیں۔ مشاہدین کا کہنا ہے کہ جیسا کہ داعش روزانہ کی بنیادوں پر افغانستان میں علاقہ اور لڑنے والوں سے ہاتھ دھو رہی ہے، یہ ویڈیو طاقت کی کوشش اور خوف پیدا کرنے کی ایک مایوسی سے بھری کوشش ہے۔ [فائل]

دیگر مناظر میں سیاح لباس میں ملبوس چار شخص ایک قطار میں کھڑے دکھائے گئے، جن کے منہ ڈھکے ہوئے تھے اور وہ اپنے سامنے جھکے قیدیوں، جن کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی تھیں، کو قتل کر رہے ہیں۔

مشاہدین کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو گزشتہ برس کے دوران افغانستان بھر میں ناقابلِ تلافی شکستوں کے ایک سلسلہ کے بعد داعش خراسان کی جانب سے اپنی ڈوبتی ہوئی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ایک مایوسی پر مبنی کوشش کا ثبوت ہے۔

داعش کی جانب سے بچوں کا اغوا اور دماغ شوئی

افغان حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ داعش زبردستی پر مبنی متعدد تدابیر کے ذریعے نام نہاد ”خلافت کے بچے“ کہلانے والے ان بچوں کو بھرتی اور ان کی دماغ شوئی اور تربیت کرتی ہے۔

کنہار اور ہیرات کے صوبوں کے ایک سابق گورنر فیض اللہ واحدی نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”داعش اپنے علاقہ ہائے عملداری میں ان بچوں کو اغوا یا بھرتی کر کے تربیت دیتی ہے۔ مزید برآں وہ افغانوں کے بچوں کو بھرتی اور ان کی دماغ شوئی کرنے کے لیے ان کی جہالت اور غربت کا فائدہ اٹھاتی ہے۔“

انہوں نے کہا، ”داعش افواج ان بھرتی شدہ بچوں کی دماغ شوئی کرنے کے بعد خود کش حملے کرنے اور دھماکہ خیز مواد پر کام کرنے کے لیے ان کی تربیت کرتے ہیں۔ مزید برآں وہ ان بچوں کو اس حد تک بنیاد پرست بنا دیتے ہیں کہ وہ قتل، خودکش حملوں اور ظلم و ستم کے سوا کچھ نہیں سوچتے۔“

واحدی نے کہا، ”میں نے ذاتی طور پر ایسے واقعات دیکھے ہیں جن میں داعش بھرتی شدگان نے اپنے بھائیوں کو قتل کرتے ہوئے اپنے خاندانوں تک کے لیے بھی رحم کا مظاہرہ نہیں کیا۔“

داعش دباؤ میں، علاقوں سے محروم

وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان جنرل دولت وزیری نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”داعش کو افغانستان میں بھاری نقصانات پہنچے ہیں اور افغان مسلسل ملک کے چاروں کونوں میں اس گروہ کی شکست کی خبریں سن رہے ہیں۔“

افغانستان میں داعش کو پہنچنے والے نقصانات میں اتحادی افواج نے 11 جولائی کو صوبہ کنہار میں ابو سائد کی ہلاکت سمیت اس کے تین رہنماؤں کو ہلاک کیا۔

انہوں نے کہا، ”یہ گروہ معصوم بچوں کو استعمال کرتے ہوئے اور جعلی طاقت کا مظاہر کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی موجودگی کو ثابت کرنے کے لیے بے تاب ہے۔“

وزیری نے کہا، ”داعش نے افغانستان کی عوام کے ساتھ نہایت وحشیانہ جرائم کیے ہیں۔ افغان عوام داعش کو ایسا وحشتناک دہشتگرد گروہ سمجھتے ہیں جو افغان شہریوں کے لیے کسی رحم کا مظاہرہ نہیں کرتا۔“

انہوں نے کہا، ”داعش افغان بالغوں میں سے کوئی نئے رکن بھرتی نہیں کر سکتا، نتیجتاً یہ ان بچوں کو بھرتی کرتا ہے جواسلامی اصولوں سے ناواقف ہیں، مناسب علم نہیں رکھتے، مقابلہ اور جنگ سے اصولوں سے نابلد ہیں، اور حقوقِ انسانی کے اصولوں سے بے خبر ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا، ”وہ بچوں کے خاندانوں پر دباؤ ڈال کر انہیں زبردستی بھرتی کرتے ہیں۔“

ایک سابق فوجی افسر اور قابل سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار اسد اللہ والوالجی نے کہا، ”حکومت اور میڈیا کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹس کے مطابق، داعش نے اپنی جنگی افواج کی واضح اکثریت کو کھو دیا ہے اور ننگر ہار میں واقع اس کی طاقت کا مرکز مکمل طور پر منہدم کیا جا چکا ہے۔“

انہوں نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اس سبب داعش اپنی عسکری استعداد کھو چکا ہے۔ اپنی شکست کو چھپانے کے لیے۔۔۔ انہوں نے بچوں کے استعمال کو اپنے ایجنڈا پر رکھا ہے، جو کہ ایک ایسا معمول ہے جو جنگجوئی کے عام طور پر قابلِ قبول تمام اصولوں کے منافی ہے۔“

والوالجی نے کہا، ”داعش بچوں کو بھرتی اور ان کی دماغ شوئی کر کے معاشرہ میں ۔۔۔ خوف و دہشت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔“

انہوں نے کہا، ”لیکن چونکہ افغان کبھی داعش کو نہیں چاہتے، داعش کا منصوبہ کبھی افغانستان میں کام نہیں کر سکتا۔ دراصل انہوں نے بربادی کے داہانے پر موجود ایک گروہ، داعش کو شکست دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔“

بچوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی

کابل میں مقیم بچوں کے حقوق کے کارکن عبدالباقی سمندر نے بتایا، "داعش کی جانب سے جاری کی جانے والی ویڈیو میں بچوں کا دیگر بچوں کو سزا دینا ... افغانستان کے بچوں کے خلاف ایک جرم ہے۔"

"بچے ہر ملک کے مستقبل کی تعمیر کی اینٹیں ہیں،" انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا۔ "بدقسمتی سے، داعش نے بچوں کو بھرتی کرکے اور انھیں دہشت گردی کے بہیمانہ طریقے سکھا کر افغان معاشرہ کی بنیادوں کو تباہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔"

"دہشت گردوں اور عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے بچوں کو بھرتی کرنا افغانستان کے قانون، بچوں کے حقوق کے کنونشنز اور تمام اسلامی اور افغان قدروں کے خلاف ہے،" انہوں نے مزید بتایا کہ بین الاقوامی کنونشنز کے تحت حکومت بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی پابند ہے۔

دی افغانستان انڈیپینڈینٹ ہیممن رائٹس کمیشن (اے آئی ایچ آر سی( نے بھی افغانستان میں عسکریت پسندوں اور دہشت گرد گروہوں کے بچوں کو بھرتی کرنے کے بارے میں گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اے آئی ایچ آر سی کے ترجمان بلال صدیقی نے سلام ٹائمز کو بتایا، داعش کا بچوں کو سپاہی کے طور پر بھرتی کرنا، ان کی سزا دینے والے کے طور پر تربیت کرنا اور بچوں کو سزائیں ... انسانی حقوق کی اقدار، بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین، یونیورسل ہیومن رائٹس کنونشنز، افغانستان کے قانون اور اسلامی اصولوں سے براہ راست متصادم ہے۔

انہوں نے بتایا، "[اے آئی ایچ آرسی] حکومت، بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں سے دہشت گرد گروہوں کو بچوں کی بھرتی اور بچوں کے استحصال سے روکنے کے لئے ہر ممکن طریقہ استعمال کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

میں یہاں نیا ہوں اور بعد میں تبصرہ کروں گا.

جواب