کوئٹہ— پاکستانی حکام دو ممکنہ ملزمان کی تلاش میں ہیں جو ممکن ہے کہ کوئٹہ کی زرغون روڈ پر چرچ پر ایک مہلک حملہ کر کے فرار ہو گئے ہیں۔
"دولتِ اسلامیہٴ" (آئی ایس آئی ایس) نے اتوار (17 دسمبر) کو بیتھیل میموریل میتھوڈسٹ چرچ پر ہونے والے حملہ کی ذمہ داری قبول کی۔
سول ہسپتال کوئٹہ کے ترجمان ڈاکٹر وسیم احمد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نو افراد جاںبحق ہوئے اور 44 دیگر زخمی ہوئے۔
مبینہ طور پر ہلاک شدگان میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔
بلوچستان کے وزیرِ داخلہ میر سرفراز بگٹی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "400 سے زائد عبادت گزاراس سروس میں شریک تھے ۔۔۔ جب دو خود کش حملہ آوروں نے چرچ پر دھاوا بول دیا۔"
سیکیورٹی فورسز نے چرچ کے مین گیٹ تک پہنچنے سے قبل پہلے حملہ آور کو ہلاک کر دیا۔
بگٹی نے کہا، "دوسرا خودکش حملہ آور، جو گولیوں کے تبادلہ میں زخمی ہو گیا تھا، نے چرچ کے [دروازے] پر خود کو اڑا لیا۔"
حملہ کے کئی گھنٹے بعد خبریں گردش کرنے لگیں کہ چار حملہ آور ملوث ہو سکتے ہیں، جن میں سے دو فرار ہو گئے۔
اے ایف پی نے خبر دی کہ کوئٹہ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس عبدالرزّاق چیمہ نے کہا کہ تفتیش کنندگان دعویٰ کی پڑتال کرنے کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کا تجزیہ کر رہے ہیں اور مزید ملزمان کے لیے تلاش کا آغاز کر دیا ہے۔
بلوچستان کے انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری نے موقع پر کہا، "ہم مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔"
عبادت گزاروں کے خلاف ایک ‘ بزدلانہ حملہ’
بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری نے عہد کیا کہ بنیاد پرست شدّت پسند اپنے امن مخالف ایجنڈا میں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے۔
انہوں نے ایک پریس بیان میں کہا، "ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور عسکریت پسند اپنے مذموم منصوبوں کے لیے ایک آسان ہدف تلاش کر رہے ہیں "۔
عبادت گزاروں میں 25 سالہ لیاقت مسیح شامل تھے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "چرچ کے بند ہال میں گولیاں عبادت گزاروں کو لگ رہی تھیں۔"
انہوں عزائم کو ناکام بنانے کے لیے فوجیوں کو سراہتے ہوئے مزید کہا کہ دوسرے زخمی خودکش حملہ آور نے "خود کو عبادت گزاروں کے درمیان اڑانے کی" بے کار کوشش کی۔
اجتماع کی قریب 35 برس کی ایک اور شریک انوشا برکت نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم نے اس بزدالانہ حملہ میں اپنے بہت سے ساتھی عبادت گزار کھو دیے۔"
انہوں نے کہا، "گولیوں کے تبادلہ کے دوران جب کہ چند سیکیورٹی اہلکار عسکریت پسندوں کا مقابلہ کر رہے تھے، دیگر نے ہماری حفاظت کی۔"