سلامتی

پاکستان میں عبادت گاہوں پر دہشت گرد حملوں میں کمی دیکھی جا رہی ہے

از جاوید محمود

پاکستانی پولیس 26 ستمبر کو اسلام آباد میں ایک مسجد کے سامنے گاڑی سواروں کی تلاشی لیتے ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی بہتر کارروائیوں نے سنہ 2016 میں عبادت گاہوں پر دہشت گرد حملوں کو 9 سال کی کم ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ [جاوید محمود]

پاکستانی پولیس 26 ستمبر کو اسلام آباد میں ایک مسجد کے سامنے گاڑی سواروں کی تلاشی لیتے ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی بہتر کارروائیوں نے سنہ 2016 میں عبادت گاہوں پر دہشت گرد حملوں کو 9 سال کی کم ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ [جاوید محمود]

اسلام آباد - تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سنہ 2016 میں عبادت گاہوں پر دہشت گرد حملوں میں انتہائی کمی دیکھی گئی ہے، جس کا بنیادی سبب سیکیورٹی کہ بہتر صورتحال اور عسکریت پسندوں کے خلاف بے رحمانہ عسکری کارروائیاں ہیں۔

وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں، مہمند ایجنسی میں ایک مسجد پر جماعت الاحرار کا ایک حالیہ خودکش حملہ، جس میں 36 نمازی شہید ہوئے، اس مسئلے کو قومی توجہ میں لایا ہے۔

لیکن 16 ستمبر کا واقعہ سنہ 2016 میں پاکستان میں کسی عبادت گاہ پر ہونے والا دہشت گرد حملے کا واحد واقعہ ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے بم دھماکے کی ایک اور کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔

سنہ 2015 میں، دہشت گردوں نے عبادت گاہوں پر چھ بار حملے کیے، جن میں 111 افراد جاں بحق، حملہ آور ہلاک ہوئے۔

ساؤتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل کے مطابق، سنہ 2002 اور 2015 کے درمیان، پورے پاکستان میں تقریباً 101 دہشت گرد حملوں میں مساجد، امام بارگاہوں اور اقلیتی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 1،366 عبادت گزار جاں بحق اور 2،748 دیگر زخمی ہوئے۔

دہشت گردی کے خلاف متحد

پشاور کے مقامی بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ، ایک دفاعی تجزیہ کار اور سابق دفاعی سیکریٹری برائے فاٹا، نے کہا، "آپریشن ضربِ عضب [جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والا ایک فوجی آپریشن] نے ملک میں عسکریت پسندی کو کم کرنے میں ایک مرکزی کردار ادا کیا۔ اس نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں، بنیادی ڈھانچے، بم سازی کے یونٹوں، تربیتی مراکز اور ہتھیاروں کے ذخائر کا صفایا کیا۔"

انہوں نے کہا کہ فوج کی جانب سے صفائی کر دینے سے پہلے، شمالی وزیرستان، "آپریشن سے قبل دہشت گردوں کے ایک مرکز اور سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک ممنوعہ علاقے کے طور پر جانا جاتا تھا۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "فوجی آپریشن سے پہلے کے برعکس، اب لوگوں کو عبادت گاہوں، مارکیٹوں، ہوٹلوں اور عوامی مقامات پر جانے کے بارے میں کوئی خوف نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا، "آج لوگ خود کو زیادہ محفوظ اور سلامت محسوس کرتے ہیں ۔۔۔ جس کی بنیادی وجہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن ہے۔ اس نے ریاست کی رٹ کو بحال کیا ہے اور طالبان کے مضبوط قبضے اور خوف کا خاتمہ کیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اکا دُکا حملے اب بھی اور دوبارہ ہوں گے، لیکن جاری سیکیورٹی آپریشن پاکستان سے عسکریت پسندی کا خاتمہ کریں گے۔

انہوں نے کہا، "کچھ عسکریت پسندوں نے افغانستان کی سرحد کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں پناہ لے رکھی ہے، لیکن پاکستان کی سیکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں اور ان کے محفوظ راستوں کو ختم کرنے کے لیے کارروائیاں کر رہی ہیں۔"

شاہ نے پاکستانی حکام کو ترغیب دی کہ افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کو محفوظ بنانے اور ملک میں باقی ماندہ 1.5 ملین افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کی کوششیں جاری رکھیں۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ حفاظتی اقدامات کرنا انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کے خاتمے اور حوصلہ شکنی کے لیے ضروری ہے۔

پاکستانی مذہبی اختلاف پر مزاحمت کرتے ہیں

کراچی کے مقامی دفاعی تجزیہ کار کرنل (ر) مختار احمد بٹ نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب، ملک کے مختلف حصوں میں عسکریت پسندون کے خلاف محدود کارروائیوں اور حساس علاقوں میں عبادت گاہوں کی بہتر حفاظت نے کثرت سے ہونے والے حملوں کے ماحول کو لگ بھگ مکمل ختم کر دیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عبادت گاہیں عسکریت پسندوں کے لیے آسان اہداف رہی ہیں۔ انہوں نے مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے ملک میں کئی مساجد، امام بارگاہوں، گرجا گھروں اور مندروں کو حملوں کا نشانہ بنایا۔"

انہوں نے کہا کہ حکومت، دفاعی حکام اور عبادت گاہوں کے منتظمین کو حفاظت میں اضافہ کرنا چاہیئے اور عسکریت پسندوں کے اور بھی زیادہ خاتمے کے لیے حفاظت میں مقامی شہریوں کو شامل کرنا چاہیئے۔

ایک دفاعی تجزیہ کار اور ریاستی ٹیلی وژن پی ٹی وی نیوز کے کراچی میں شعبہ جاتی سربراہ، اسد اللہ بھٹی نے کہا، "صوبہ سندھ میں دفاعی حکام کی جانب سے محدود کارروائیوں اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے لیے بہتر حفاظت نے ان مقامات کو کثرت سے ہونے والے دہشت گرد حملوں سے بچایا ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح، سندھ کو مسلمانوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی عبادت گاہوں پر بڑے دہشت گرد حملوں کی کثرت کا سامنا تھا، لیکن عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن [ضربِ عضب] نے سنہ 2016 میں اس صوبے میں ایسے حملوں کا خاتمہ کر دیا۔"

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد عبادت گاہوں پر حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں مختلف فرقوں اور مذاہب کے پیروکاروں کے مابین جھگڑا کروانے کے لیے کرتے ہیں، لیکن بہتر حفاظت اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں نے اس سازش کو ناکام بنا دیا ہے۔

یہ یاد دلاتے ہوئے کہ پولیس افسران اور سول حفاظتی پہرے داروں نے ایک ممکنہ خودکش بمبار کو زندہ گرفتار کیا، انہوں نے کہا کہ عیدالاضحیٰ کے دوران، چند ہفتے قبل، دہشت گردوں نے شکار پور میں ایک شیعہ مجلس کو نشانہ بنایا۔

بھٹی نے کہا کہ دوسرے نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس سے 11 افراد زخمی ہو گئے۔

انہوں نے کہا، "پاکستان کے عوام کو چاہیئے کہ دہشت گردی سے عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے دفاعی افسران کے ساتھ ہاتھ ملائیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Ai kal honest kfe control kr choke Mazeed or control ke zorrarat hay thanks

جواب

آپ نے بہت خوب لکھا۔ وقت پر خبرپہنچانے کے لیے شکریہ۔

جواب