کراچی – پاکستانی مسلمانوں کے لئے رمضان صرف مذہبی اور روحانی اہمیت کا حامل ہی نہیں۔
بلکہ یہ جشن منانے کا بھی وقت ہے بلاشبہ کرکٹ۔
ہر سال مقدس مہینے کی آمد کے ساتھ پاکستانی نوجوان دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات میں گلیوں میں کرکٹ اور دیگر کھیل کھیلتے ہیں۔
یہ نائٹ ٹورنامنٹس پورے ملک میں کھیل کے میدانوں اور سنسان سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس کے نیچے منعقد کیے جاتے ہیں اور یہ رمضان کی روایات اور جشن کا ایک اہم حصہ بن گئے ہیں۔
زیادہ تر نوجوان پاکستان کا پسندیدہ کھیل کرکٹ کھیلتے ہیں جبکہ بعض علاقوں میں شوقین فٹ بال اور والی بال کھیلتے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے رمضان کے دوران ٹورنامنٹس منعقد کروانے والے کراچی کے رہائشی کرکٹر محمد عمار نے بتایا، اسٹیڈیمز میں درجنوں بلا منصوبہ ٹورنامنٹس منعقد ہوتے ہیں جبکہ ہر محلے میں اسٹریٹ میچز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
عمار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "نوجوان کرکٹرز کے لئے رمضان، سال کا بہت ہی ولولہ خیز وقت ہے، جب وہ دن بھر کے روزے کے بعد رات کو کرکٹ کھیلتے ہیں۔"
انہوں نے بتایا، وہ عام طور پر رات کی نماز کے بعد 10 بجے رات کو شروع کرتے ہیں اور فجر سے پہلے کھانے، سحری کے لئے گھر جانے سے قبل صبح 2:30 پر ختم کرتے ہیں۔
سیکیورٹی میں اضافہ کمیونیٹیز کو مجتمع کر رہا ہے
طالبان عسکریت پسندوں کی رمضان میں حملوں میں اضافہ اور کھیلوں کی سرگرمیوں پر حملوں کی تاریخ رہی ہے۔
ایتھلیٹس پر طالبان کا مہلک ترین حملہ جنوری 2010 میں ہوا جب ایک خودکش حملہ آور نے ضلع لکی مروت، خیبرپختونخواہ (کے پی) میں ایک والی بال ٹورنامنٹ پر حملہ کر کے کم از کم 100 افراد کو جانبحق کر دیا۔
اپریل 2014 میں صوبہ پاکتیکا، افغانستان میں ایک والی بال ٹورنامنٹ میں افغان طالبان کے حملہ میں کم از کم 45 کھلاڑی جان بحق ہو گئے۔
لیکن دونوں ممالک میں عسکریت پسندوں کو ہدف بنانے والے سیکیورٹی آپریشنز کے مرہونِ منّت رمضان کے دوران رات کے ٹورنامنٹ مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
لکی مروت میں کھیل کے جس میدان میں جنوری 2010 میں بم دھماکہ ہوا، وہیں پر رواں برس متعدد نوجوانوں نے رات کے وقت کھیلے جانے والے والی بال میچوں میں حصّہ لیا۔
لکی مروت میں والی بال کھلاڑیوں میں سے ایک، شفیع مروت نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہم طالبان کی بربریّت کو نہیں بھولے جب انہوں نے ہمارے ضلع میں غیر انسانی طور پر درجنوں ایتھلیٹس اور شائقین کو قتل کیا۔“
انہوں نے کہا کہ اب قریبی قبائلی علاقوں میں عسکری آپریشنز کی کامیابی کے بعد باشندے تحفظ محسوس کرتے ہیں۔
کراچی میں جہاں نسلی فسادات نے مختلف کمیونیٹیز کے نوجوانوں کو مل کر کھیلنے سے روک دیا تھا، رینجرز کی قیادت میں ستمبر 2013 میں ہونے والے ایک آپریشن نے تمام فرقوں اور نسلوں سے نوجوانوں کو رات کو کھیلے جانے والے ٹورنامنٹس میں دوبارہ اکٹھے ہونے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔
عمّار نے کہا، ”آپریشن سے قبل نسلی و سیاسی فسادات کی وجہ سے لیاری، لیاقت آباد یا سہراب گوٹھ جانا ممکن نہ تھا۔ اب میٹروپولس میں کریک ڈاؤن نے رات کے وقت کھیلے جانے والے ٹورنامنٹس کی تعداد میں اضافہ ممکن بنا دیا ہے، جن میں تمام فرقوں اور نسلوں کی مکمل شرکت ہوتی ہے۔“
رمضان میں سیّاحوں پر حملے
علمائے دین، عالمی رہنماؤں اور شہریوں کی جانب سے تشدد بند کرنے کے مطالبات کے باوجود افغان طالبان، ”دولتِ اسلامیۂ“ (داعش) اور القاعدہ جیسے دہشتگرد گروہوں نے دورانِ رمضان حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
گزشتہ برس دورانِ رمضان متعدد ممالک میں کیے جانے والے 14 دہشتگردانہ حملوں میں 5200 افراد کو جانبحق کرنے کی داعش نے فخر سے ذمّہ داری قبول کی.
داعش کے ایک اخباری جریدے الانباء میں متاثرین کا شمار بیان کیا گیا، جن میں دیگر کے ساتھ 2,000 شعیہ، 1,000 کرد، 600 شامی حوثی اور 300 مسیحی شامل ہیں۔
خوش قسمتی سے اس رمضان پاکستان میں کوئی بڑا دہشتگردانہ حملہ نہیں ہوا، یہ ایک کارِ نمایاں ہے جسے سیکیورٹی تجزیہ کار ملک بھر میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اتحادی عسکریت پسند گروہوں کو ہدف بنانے والے انٹیلی جنس پر مبنی عسکری آپریشنز کے مرہونِ منّت قرار دیتے ہیں۔
تاہم، ہمسایہ افغانستان اس قدر خوش قسمت نہیں رہا۔
رمضان کے پہلے روز، 27 مئی کو ایک طالبان خودکش کار بمبار نے خوست شہر، افغانستان میں بچوں سمیت 13 افراد کو جانبحق اور 6 کو زخمی کیا۔
31 مئی کو ایک بڑے ٹرک بم حملے نے کابل کے ڈپلومیٹک کوارٹر کو تباہ کر کے رکھ دیا جس میں کم از کم 150 افراد جانبحق اور سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔
3 جون کو خود کش حملہ آورایک جنازہ میں شرکت کرنے والے سوگواران کی ایک صف میں جا گھسے اور کم از کم سات جانیں لیں۔
6 جون کو ہیرات کی جامع مسجد کے قریب ایک موٹرسائیکل بم پھٹا، جس سے سات افراد جان بحق ہو گئے۔
اور 15 جون کو داعش خود کش بمباروں نے کابل میں الزہرہ مسجد پر حملہ کیا، جس سے ایک پولیس اہلکار اور تین شہری جانبحق اور آٹھ – چار پولیس اہلکار اور چار شہری—زخمی ہو گئے۔
امن اور کفارہ کا مہینہ
پاکستانی علمائے دین نے ان بے رحمیوں کو ”غیر اسلامی“ اور ”غیر انسانی“ قرار دیتے ہوئے ان کی مذت کی۔
کراچی میں عسکریت پسندانہ حملوں کی نگرانی کرنے والے ایک صوفی عالمِ دین علّامہ مجید صدّیقی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”رمضان امن عبادات اور کفارہ کا مہینہ ہے۔“
انہوں نے کہا، ”اس ماہِ مقدّس میں داعش جیسے دہشتگرد گروہوں کی تباہ کن کاروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ان کا اسلام اور انسانیت سے کچھ واسطہ نہیں۔“
گزشتہ دو برسوں میں داعش نے دہشتگردی کرنے اور شہریوں— مسلمانوں اور غیر مسلموں، ہر دو-- کو قتل کرنے کے لیے بطورِخاص رمضان کے ماہِ مقدّس کا انتخاب کیا۔
انہوں نے کہا، ”داعش کا اسلام کو بدنام کرنے کا اپنا ایجنڈا ہے۔ لیکن دنیا بھر میں مسلمان اور غیر مسلم کمیونیٹیز نے اس کا ادراک کر لیا ہے اور وہ دہشتگرد گروہوں کے خلاف اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔“