دہشتگردی

ٹی ٹٰی پی کی جانب سے دورانِ رمضان تشدد میں اضافہ کرنے کے عہد کے بعد سے پاکستان میں سیکیورٹی سخت

زرق خان

5 مارچ کو پشاور میں ایک خودکش حملے، جس کی ذمہ داری داعش کے نے قبول کی اور جس میں 64 افراد جاںبحق ہوئے، کے ایک روز بعد بم دھماکے کے متاثرین کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے سوگواران آ رہے ہیں اور ایک پولیس اہلکار پہرہ دے رہا ہے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

5 مارچ کو پشاور میں ایک خودکش حملے، جس کی ذمہ داری داعش کے نے قبول کی اور جس میں 64 افراد جاںبحق ہوئے، کے ایک روز بعد بم دھماکے کے متاثرین کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے سوگواران آ رہے ہیں اور ایک پولیس اہلکار پہرہ دے رہا ہے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

اسلام آباد – پاکستان کی نفاذِ قانون کی ایجنسیوں نے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے رمضان کے ماہِ مقدس کے دوران سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافے کے منصوبوں کے اعلان کے بعد سیکیورٹی اقدامات میں اضافہ کر دیا ہے۔

پاکستان میں رمضان کا بابرکت مہینہ اتوار (3 اپریل) کو شروع ہوا۔

ٹی ٹی پی کے ایک ترجمان محمّد خراسانی نے کہا کہ دہشتگرد گروہ کی "بہارِ جارحیت" رمضان کے روزِ اول سے شروع ہو گی اور سیکیورٹی فورسز اور ان کے شراکت داروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

خراسانی نے 30 مارچ کو ایک بیان میں کہا، "اس آپریشن میں فدائی [خود کش] آپریشنز، گھات لگا کر حملے، بارودی سرنگوں کے آپریشنز، جوابی حملے، ٹارگٹڈ حملے، لیزر اور نشانہ باز آپریشن شامل ہوں گے۔"

28 جنوری کو چمن کے سرحدی شہر میں ایک حملے میں، جس کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی، میں شہید ہونے والے ایک پولیس اہلکار کے جنازہ کے دوران اقارب اور مقامی رہائشی ان کی میت اٹھا کر لا رہے ہیں۔ [عبدالباسط/اے ایف پی]

28 جنوری کو چمن کے سرحدی شہر میں ایک حملے میں، جس کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی، میں شہید ہونے والے ایک پولیس اہلکار کے جنازہ کے دوران اقارب اور مقامی رہائشی ان کی میت اٹھا کر لا رہے ہیں۔ [عبدالباسط/اے ایف پی]

ضلع کرم، پاکستان میں پاک افغان سرحد پر سرحدی باڑ کی مارچ 2021 میں لی گئی فائل فوٹو۔ ٹی ٹی پی زیادہ تر حملے سرحد پار افغانستان میں اپنی کمین گاہوں سے کرتی ہے۔ [زرق خان]

ضلع کرم، پاکستان میں پاک افغان سرحد پر سرحدی باڑ کی مارچ 2021 میں لی گئی فائل فوٹو۔ ٹی ٹی پی زیادہ تر حملے سرحد پار افغانستان میں اپنی کمین گاہوں سے کرتی ہے۔ [زرق خان]

جواباً ملک بھر میں نفاذِ قانون کی ایجنسیوں نے سیکیورٹی پلان تیار کیے ہیں اور ماہِ رمضان میں امنِ عامہ برقرار رکھنے اور کسی بھی قسم کے دہشتگردانہ خدشے کے لیے تیار رہنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

خیبرپختونخوا (کے پی)، جہاں ٹی ٹی پی اور " دولتِ اسلامیہ" کی خراسان (داعش-کے) نے اپنے زیادہ تر حملے کیے ہیں، میں ضلعی عہدیداران نے سیکیورٹی کو بہتر بنانے اور گشت کو بڑھانے اور حساس مقامات کا جائزہ لینے کے لیے کام کیا ہے۔

کے پی کے صدرمقام پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر پولیس عہدہدار نے کہا کہ دروانِ رمضان شہر بھر میں چار ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

اس پولیس عہدیدار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی شرط پر کہا، " رمضان کے دوران پولیس حسبِ معمول اپنی سیکیورٹی میں اضافہ کرتی ہے ، تاہم اس مرتبہ، ٹی ٹی پی کی دھمکی کی وجہ سے ملک کی وزارتِ داخلہ نے صوبہ میں پولیس سے سیکیورٹی برقرار رکھنے کے لیے اضافی احتیاطی تدابیر کرنے کو کہا ہے۔"

انہوں نے کہا شہر میں مساجد اور عوامی مقامات سمیت حساس ترین مقامات پر پولیس تعینات کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ رمضان کے دوران پولیس کی مخصوص فورسز، جیسا کہ ابابیل فورس، سٹی پیٹرول فورس اور سپیشل رائیڈر سکواڈ شہر میں گشت کریں گے۔

مارچ میں پشاور میں ایک شعیہ مسجد میں ایک خودکش بم حملہ میں کم از کم 64 نمازی جاںبحق ہو گئے ۔ داعش کے نے ذمہ داری قبول کی ۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک عالمِ دین مفتی عبدالرشید نے کہا کہ رمضان کے ماہِ مقدس میں دہشتگرد حملے کرنے کا ٹی ٹی پی کا عزم ظاہر کرتا ہے کہ اس کا اسلام کے کچھ لینا دینا نہیں۔

رشید نے کہا، "رمضان خدا کی مہمان نوازی کا مہینہ ہے۔ مسلمانوں پر روزے، نماز اور نمازِ تراویح کے لیے جانا فرض ہے۔"

"لیکن پاکستانیوں کو یہ ماہِ مقدس امن سے گزارنے دینے کی بجائے، ٹی ٹی پی نے حملوں کے منصوبوں کا اعلان کر دیا۔"

ٹی ٹی پی حملوں میں اضافہ

ٹی ٹی پی نے گزشتہ برسوں کے دوران پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور شہریوں پر سینکڑوں حملے کیے ہیں، جن میں دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر ایک حملہ شامل ہے جس میں 145 سے زائد افراد جاںبحق ہو گئے ، جن میں زیادہ تر بچے تھے۔

پاکستان، امریکہ اور اقوامِ متحدہ نے ٹی ٹی پی کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے ۔

ٹی ٹی پی اور اسلام آباد نے نومبر میں ایک عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا جس سے دہشتگردی کے متاثرین اور سول سوسائٹی فعالیت پسندوں کی طرف سے تند تنقید بھڑک اٹھی ۔ ٹی ٹی پی نے 10 دسمبر کو جنگ بندی کے خاتمہ کا اعلان کیا۔

2014 میں شروع ہونے والے ایک پاکستانی عسکری آپریشن میں اس کے چوٹی کے رہنما مارے جانے اور باقی ماندگان کو افغانستان دھکیل دیے جانے کے بعد 2020 کے اواخر تک یہ گروہ نسبتاً کمزور معلوم ہوا۔

اب اس نے پاکستان میں حملوں میں اضافہ کر دیا ہے، جن میں سے زیادہ تر عسکری عملہ اور پولیس اہلکاروں پر ہوتے ہیں۔

ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ اس نے مارچ میں 39 حملے کیے، جو تمام کے پی میں کیے گئے۔ حکام کے مطابق، زیادہ تر افغانستان میں ٹی ٹی پی کی کمین گاہوں سے کیے گئے تھے۔

پاک فوج نے 30 مارچ کو کہا کہ ایک حالیہ سانحہ میں ٹانک اور جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز اور ٹی ٹی پی کے درمیان تنازعات میں فوج کے ایک کپتان سمیت آٹھ سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے اور سات دہشتگرد مارے گئے۔

جاری کریک ڈاؤن

درایں اثناء، افواجِ پاکستان اس عسکریت پسند گروہ کے خلاف آپریشنز میں اضافہ کر رہی ہیں۔

ہفتہ کے روز کراچی پولیس نے ایک کمین گاہ پر چھاپے کے دوران ٹی ٹی پی کے ایک مشتبہ عسکریت پسند سردار خان کو گرفتار کیا اور اس کے قبضہ سے اسلحہ اور گولہ بارود بازیاب کیا۔

پولیس نے کہا کہ 2013 میں ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کرنے والا خان، شہر میں روپوش رہنے والے عسکریت پسندوں میں سے تھا اور ضلع ڈیرہ غازی خان، صوبہ پنجاب میں ایک غیر سرکاری تنظیم اور ضلع ٹانک میں نیم فوجی فورس پر حملوں میں ملوث تھا۔

30 مارچ کو اسلام آباد پولیس نے چار ٹی ٹی پی عسکریت پسند مجرمان کو گرفتار کیا جو صدرمقام میں سیاسی اجتماعات کو ہدف بنانے کے کوشش کر رہے تھے۔

پولیس نے کہا کہ انہوں نے ملزمان سے دھماکہ خیز مواد، ڈیٹونیٹر، بال بیئرنگ اور لوہے کے کیل برآمد کیے۔

قبل ازاں، 19 مارچ کو پنجاب کے شعبہٴ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے صوبے کے مختلف حصوں سے ٹی ٹی پی اور برِ صغیر میں القاعدہ (اے کیو آئی ایس) سے تعلق رکھنے والے پانچ ملزمان کو گرفتار کیا اور ان کے قبضہ سے دھماکہ خیز مواد، دستی بم اور ڈیٹونیٹر بازیاب کیے۔

سی ٹی ڈی نے ایک بیان میں کہا، "گرفتار شدہ عسکریت پسند نفاذِ قانون کے اہلکاروں اور سرکاری عمارات پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500