پشاور -- تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ امن و امان کی بہتر صورتحال اور عسکری گروہوں کے خلاف دفاعی کامیابیوں نے پاکستان کے تجارتی شعبے کے لیے دروازے کھول دیئے ہیں۔
پاکستان ان دس ممالک سے میں سے ایک ہے جنہیں عالمی بینک کی کاروبار کرنے کی رپورٹ میں اپنے تجارتی قوانین میں سب سے زیادہ بہتریاں کرنے کے لیے نمایاں کیا گیا ہے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستانی تجارت حمایتی اصلاحات نے، قرض تک رسائی کرتے اور املاک کا اندراج کرتے ہوئے، سرحد کے آر پار تجارت میں سہولت پیدا کی ہے۔ ان اصلاحات نے 190 ممالک کی فہرست میں پاکستان کی درجہ بندی 145 سے 144 کر دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سرحد کے آر پار تجارت میں آسانی "پاکستان میں کسٹمز کلیئرنس کے لیے ایک نئے برقیاتی پلیٹ فارم کو متعارف کروانے" کے ذریعے ہوئی۔ نئے قوانین قرض دینے والے اداروں کو بھی مجبور کرتے ہیں کہ وہ قرض خواہوں کو ان کے قرض کی رپورٹ کی ایک نقل فراہم کریں۔
صوبہ پنجاب نے 2007 میں زمینوں کے ریکارڈ کے انتظام اور معلومات کے پروگرام کے اجراء کے ساتھ املاک کے انتظام میں پاکستان کی بہتریوں میں رہنمائی کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا، "ایک پانچ برس کے عرصے کے دوران، اس منصوبے نے زمینوں کے ریکارڈ کا ایک خودکار نظام قائم کیا اور محکمۂ زمین کی جانب سے فراہم کردہ خدمات کے معیار کو بہتر بنایا۔"
بہتر تحفظ، معاشی ترقی
وزارتِ خزانہ کے پاکستان کے معاشی سروے برائے سال 2016-2015 کے مطابق، مجموعی طور پر، پاکستان میں متواتر تیسرے سال معاشی ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔
سروے میں کہا گیا کہ حکومت کی منصوبہ بندی کردہ اور اطلاق کردہ پالیسیوں نے اس ترقی میں حصہ ڈالا، جیسا کہ کئی طرح کے اقدامات کے ذریعے دیکھا گیا ہے -- حقیقی خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں 4.71 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو کہ آٹھ برسوں میں سب سے زیادہ شرح ہے، اور بیروزگاری کی شرح جو 2013 میں 6.2 فیصد تھی، کم ہو کر 5.9 فیصد ہو گئی ہے۔
اس میں کہا گیا کہ ان معاشی اشاریوں اور دیگر نے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا ہے۔
سروے میں کہا گیا، "بین الاقوامی درجہ بندی کے اداروں نے بھی پاکستان کی درجہ بندی کو زیادہ کر دیا ہے۔" پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ 11 کامیاب جائزے مکمل کیے ہیں، جس نے "بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مزید مضبوط کر دیا ہے اور پاکستان کو سرمایہ کاری کی مستقبل کی منزل کے طور پر ان کی ریڈار سکرین پر رکھ دیا ہے۔"
سروے میں کہا گیا کہ اس "سازگار ماحول" کی ایک کلید پاکستان کا جاری عسکری آپریشن ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) بھی ہے۔
اس میں کہا گیا کہ آپریشن ضربِ عضب، جو جون 2014 میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں سے کئی عسکری گروہوں کو نکالنے کے لیے شروع کیا گیا تھا، نے "ملک میں امن و استحکام برقرار رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔"
سروے کے مطابق، اسی طرح، این اے پی، حکومت کی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی پالیسی اپروچ نے، "بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔"
خوشحالی اور امن
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی متواتر معاشی کامیابیاں نمایاں طور پر دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے خاتمے اور خطے میں دیرپا امن کے قیام پر منحصر ہیں۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر، حاجی غلام علی نے کہا، "معاشی ترقی اور خوشحالی کا ہدف امن قائم کیے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔"
انہوں نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی نے نہ صرف سیکیورٹی فورسز پر عوامی اعتماد کی تعمیرِ نو کی ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی اعتماد دیا ہے کہ وہ آئیں اور ترقی کے ان نئے مواقع کی چھان بین کریں جو بحران کے عرصے کے دوران ناقابل تصور تھے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے ہمسایوں اور اتحادیوں میں پاکستان کی ساکھ "بھی [اس کے] عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں فاتح ہونے کے بعد بہتر ہوئی ہے۔ اس نے اس کی تجارت موافق ملک ہونے کی حالت کو بھی بہتر بنایا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ -- جو گزشتہ برس 5 فیصد پر پہنچ گیا تھا -- پیش رفت، ترقی اور امن کا واضح اشارہ ہے۔
انتہاپسندی کے خلاف فتوحات
ایف پی سی سی آئی کے سابق نائب صدر عدنان جلیل نے کہا کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا (کے پی) کے مکینوں نے "عسکریت پسندوں کے جبر کا سامنا کیا" اور "ان پرتشدد دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں ناموافق معاشی حالات کا بہادری سے مقابلہ کیا۔"
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بے یقینی اور مخدوش مستقبل نے انہیں بہتر مالی امکانات اور کاروباری مواقع کی تلاش میں پاکستان کے محفوظ تر حصوں میں منتقل ہونے پر مجبور کر دیا۔"
انہوں نے کہا، "سیکیورٹی فورسز جنہوں نے انتہاپسندی کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں، کی کوششوں کی مہربانی سے [۔۔۔] اب لوگ خود کو محفوظ اور مامون محسوس کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "خدمات کا شعبہ، جو ہوٹلوں، ریستورانوں اور تفریح کی صنعت پر مشتمل ہے، پہلا شعبہ ہے جو امن و امان کی بہتر صورتحال کے فوائد سے مستفید ہو رہا ہے۔"
انہوں نے کہا، "شہری جو دہشت گردی کے واقعات کے ڈر سے اندرونِ خانہ رہنے پر مجبور ہو گئے تھے فوجی آپریشنز کے بعد ایک بار پھر بیرونِ خانہ سرگرمیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔"
جلیل نے کہا کہ چھوٹے سے درمیانے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کی کارروائیاں، جن میں گزشتہ تین برسوں میں بہت کم ترقی دیکھی گئی تھی، اب امن و امان کی بہتر صورتحال اور تجارت کے لیے سازگار ماحول کی وجہ سے رفتار پکڑ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا، "ایس ایم ای کا شعبہ جو ایک معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے [۔۔۔] واضح بالواسطہ اثرات پیدا کرنے کے قابل ہے [جو رہنمائی کر رہے ہیں] معاشی استحکام، یکساں شرح نمو اور روزگار کے زیادہ مواقع کی طرف۔"
انہوں نے کہا، "ہم پُرامید ہیں کہ اگر امن و امان کی صورتحال میں بہتری جاری رہتی ہے، ایس ایم ای شعبے کی سالانہ شرح نمو جلد ہی 15 فیصد پر پہنچ جائے گی۔
اس موازنے میں، ہندوستان اور بنگلہ دیش نے حال ہی میں ایس ایم ای شعبے کی سالانہ شرح نمو بالترتیب 25 اور 40 فیصد رپورٹ کی ہے۔
فروخت، برآمدات میں اضافہ
قیمتی پتھر برآمد کرنے والی ایک کمپنی، ارینوال قیمتی پتھر، کے مالک سید شفیق احمد نے کہا کہ قیمتی پتھروں کا شعبہ ان صنعتوں میں سے تھا جو عسکریت پسندی سے براہِ راست متاثر ہوئی تھیں۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "کان کنی کا عمل بالکل رک گیا تھا۔ آمدنی پیدا کرنے والے اس شعبے میں سرمایہ کاری عسکریت پسندی کی وجہ سے صرف ہو گئی تھی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے بدترین برسوں کے دوران جب قیمتی پتھروں کی صنعت برباد ہو گئی، غیر ملکی سیاح جو قیمتی پتھر خریدنے کے لیے کان کنی کے علاقوں کا سفر کرتے تھے، آنا بند ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں، افغانستان اور تاجکستان سے قیمتی پتھر، بشمول یاقوت اور زمرد جو وادی پنج شیر سے ہیں، پاکستان میں دوبئی کے راستے درآمد ہوتے تھے۔ لیکن قبائلی علاقہ جات میں فساد نے اس کاروبار کو متاثر کیا، جس سے تجارت اور درآمدات میں لگ بھگ 20 فیصد کمی ہوئی۔
انہوں نے کہا، "قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے صفائی کی کارروائیوں کے بعد، صورتحال جو عسکریت پسندی کے دنوں میں خراب ہو چکی تھی بہتر ہو گئی ہے، اور زیادہ تر علاقوں، بشمول بونیر اور سوات میں کان کنی دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔"
عجیب اللہ، جو چوک ناصر خان، پشاور میں تحائف اور کتابوں کی ایک تھوک کی دکان، حمزہ سٹیشنریز، چلاتے ہیں، کا کاروبار بہت زیادہ گر گیا تھا۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہماری ماہانہ فروخت تقریباً 4 ملین روپے [38،160 امریکی ڈالر] تھی، جس میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے گزشتہ تین برسوں میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی۔"
انہوں نے کہا، "دہشت گردی کا کے پی کے دیگر شہروں میں بھی یہی اثر ہوا، جہاں زیادہ تر تاجر اور کاروباری افراد رسد اور خریداری کے لیے صوبائی دارالحکومت پر انحصار کرتے تھے۔"
انہوں نے کہا کہ اب، امن و امان بحال ہو جانے اور سازگار کاروباری ماحول کی وجہ سے، فروخت تقریباً دوگنا ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا، "آپریشن ضربِ عضب کے بعد ناپسندیدہ عناصر یا انتہاپسندوں کو قبائلی پٹی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے سرحد کے مؤثر انتظام نے بھی ایک ماحول تخلیق کیا ہے [۔۔۔] تاکہ ہمسایہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے۔"