اسلام آباد — معاشی تعاون کی تنظیم (ای سی او) کے سربراہان نے جنوبی و وسطی ایشیا میں عسکریت پسندی کو شکست دینے اور معاشی تعاون کو فروغ دینے کا عہد کیا۔
دس ممالک کے اس گروہ نے منگل – بدھ (28 فروری – یکم مارچ) کو اسلام آباد میں ایک کانفرنس منعقد کی۔ اس کی رکن ریاستوں میں افغانستان، پاکستان اور پانچوں سابق سوویت وسط ایشیائی ریاستیں شامل ہیں۔
10 ای سی او ممالک کے سربراہان کے علاوہ شرکت کنندگان میں اقوامِ متحدہ اور چند غیر رکن دوست ممالک سے عہدیداران شامل تھے۔
پاکستانی وزیرِ اعظم میاں محمّد نواز شریف نے یکم مارچ کو مذاکرات کے آخری روز کی صدارت کی۔ پاکستانی ٹی وی نے اس کانفرنس کو براہِ راست نشر کیا۔
نواز شریف نے اختتامی بیان میں کہا کہ امن و استحکام کو یقینی بنانے کی راہ میں موجود چیلنجز میں ”شدت پسندی، دہشتگردی اور منشیات کی اسمگلنگ“ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سمندر میں، زمین پر اور فضائی رابطے میں تعاون کو فروغ دے گا اور خطے کی بہتری کے لیے متعدد صنعتوں کو ترقی دینے کی کوشش کرے گا، انہوں نے مزید کہا کہ جنوب اور شمال میں رابطہ پیدا کرنا ایک دوسری ترجیح ہے۔
عسکریت پسندی کے خلاف جنگ، اسلاموفوبیا
دیگر ای سی او ممالک کے سربراہان نے مل کر عسکریت پسندی کے خلاف جنگ اور علاقائی معیشت کی بڑھوتری پر اتفاق کیا۔
ترک صدر رجب طیب اردگان نے کانفرنس میں کہا، ”ہمیں دولتِ اسلامیۂ عراق و شام [آئی ایس آئی ایل] مختلف ممالک میں لڑنے والے دیگر عسکریت پسند گروہوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیئے۔“
انہوں نے علاقائی رابطہ اور معاشی ترقی کے لیے اضافی کوششوں پر زور دیا اور قبرص کی بطور ای سی او رکن شمولیت کی تجویز دی۔
آزربائیجان کے صدر الہام علیژیو، جنہوں نے اسلاموفوبیا کو دہشتگردی اور اسلام کو خلط ملط کرنے کا باعث قرار دیا، نے کہا، ”ہمیں دنیا کو بتانا ہو گا کہ ۔۔۔ اسلام امن کا مذہب ہے۔“
پاکستان میں افغانستان کے سفیر عمر زخیل وال نے کہا، ”امن اور رابطہ کی مشترکہ طور پر پیروی کی جانی چاہیئے“.
انہوں نے علاقائی تجارت کو مسدود کرنے والی تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ریل ٹرانزٹ، سڑکوں، شعبۂ سیّاحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی کی ترقی افغانستان اور دیگر ایسی سی او ممالک کے لیے نہایت ضروری ہے۔
دہشتگردانہ حملوں میں اضافہ کے بعد پاکستان نے حال ہی میں افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی.
تجارت میں رکاوٹوں کا خاتمہ
وسط ایشیا سے رہنماؤں نے معاشی تعاون کے مطالبوں پر بھی بات کی۔
قازقستان کے وزیرِ اعظم باقىتجان ساعىنتايہۆ نے اس امر کی جانب توجہ دلاتے ہوئے توانائی میں تعاون کا مطالبہ کی کہ ان کا فراواں تیل اور گیس کا حامل ملک یورپ کے ساتھ روابط تشکیل دے رہا ہے، اور جس میں انہیں ایس سی او ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
قرغیزستانی وزیرِ اعظم سورانبائے جینبیکوف نے معاشی تعاون میں ”تیز ترقی“ پر زور دیا۔
بشکیک سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار باقىت باقیتايہۆ نے سرحد پار اشیاء کی ترسیل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ای سی او کانفرنس جینبیکوف کے لیے باہمی مفاد کے مزید تعاون کے امکانات پر بات چیت کرنے کا ایک اچھا موقع تھا۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”قرغیزستان کے لیے مختصرترین سمندری راہداری تورگڑھ، کاشغر اور اسلام آباد سے گزرتے ہوئے گوادر کی بندرگاہ پر ختم ہوتی ہے۔“
انہوں نے کہا، ”تمام وسط ایشیائی ریاستوں کا سامان قرغیزستان میں درّۂ تورگڑھ کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے،“ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ”قرغیزستان کے لیے معاشی ترقی کا ایک بڑا ذریعہ ہو سکتا ہے۔“
سی اے ایس اے 1000 پراجیکٹ میں پیشرفت
کانفرنس کے بعد شریف نے تاجک صدر امام علی رحمان سمیت متعدد شرکاء سے غیرسرکاری طور پر ملاقات کی۔
ریڈیو پاکستان نے خبر دی، ”دونوں رہنماؤں نے بالخصوص سی اے ایس اے-1000 پراجیکٹ ، جو جلد ہی تعمیر کے مرحلہ میں داخل ہو جائے گا، کے حوالہ سے معاشی حلقہ میں اب تک ہونے والی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔“ مزید کہا گیا کہ شریف اور رحمان، ہر دو نے ”تجارت، توانائی اور دفاع میں تعاون میں مزید اضافہ کی ضرورت کو اجاگر کیا۔“
وسط ایشیا جنوبی ایشیا برقی ترسیل و تجارت کا منصوبہ (سی اے ایس اے - 1000) گزشتہ برس مئی میں شروع کیا گیا عالمی بنک کا ایک منصوبہ ہے، جس کا مقصد بجلی کی ایک علاقائی منڈی تشکیل دینا ہے۔
دوشنبے، تاجکستان سے تعلق رکھنے والے ایک اکانومسٹ جہانگیر باباژیو نے کہا، ”اس کانفرنس نے علاقائی تعاون کو مستحکم کرنے کا ایک اور مرحلہ رقم کیا۔“
انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”حال ہی میں سی اے ایس اے - 1000 کے نفاذ سے متعلق متعدد مذاکرات ہوئے ہیں۔ [رحمان نے] اسلام آباد میں ملاقاتوں کے دوران اس امر کو یقینی بنانے کی ذمہ داری لی کہ طرفین – تاجکستان، قرغیزستان، افغانستان اور پاکستان – درست طور پر اس پراجیکٹ کے نفاذ کو عملی جامہ پہنائیں گے۔“
پاکستانی مبصرین حمایت کرتے ہیں
پاکستانی صحافییوں اور ماہرین نے دہشت گردی کے خلاف علاقائی یکجہتی اور اقتصادی ترقی کے موقع کے طور پر کانفرنس کا خیر مقدم کیا ہے۔
صوبہ سندھ میں صوفی مزار پر آئی ایس آئی ایل کے بم دھماکے جیسے قتل عام کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹدیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل نے بتایا "پاکستان افغانستان اور ترکی جیسے ای سی او کے رکن ممالک کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے۔"
نہوں نے پاکستان فرورڈ کو بتایا، "خطہ کے تمام ممالک کو دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے کوششیں کرنی چاہیئں۔"
کانفرنس میں ای سی او کے رکن ممالک اور دیگر اتحادیوں کی شرکت عسکریت پسندی سے لڑنے اور خوشحالی کے فروغ کے عزم کا اظہار ہے۔
اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے اسکول آف سوشل سائنسز اور ہیومینیٹیز کے ڈین اشفاق حسن خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، علاقائی اقتصادی ترقی میں ای سی او ایک "بہت اہم کردار" ادا کر رہا ہے۔
انہوں نے ارکان کے قدرتی گیس، کوئلہ، قیمتی پتھر اور دیگر قدرتی وسائل کے وسیع ذخائر کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے تیز رفتار اقتصادی تعاون کے مکینزم کی تشکیل کی تجویز دی۔
کراچی میں بزنس پلس ٹی وی کے ایک سینئر اینکر علی ناصر نے بتایا، بڑھتی ہوئی عالمی تجارت اور آزادی سے فوائد حاصل کرنے کے لئے ای سی او ممالک کو سڑکوں اور ریل کے رابطوں کو ترقی دینا، تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنا اور سفر اور ثقافتی ہم آہنگی کی سہولت فراہم کرنا چاہیئے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، سرمایہ کاری کے لئے سیاحت اور مختلف راستے کھولنے چاہیئیں اور بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کے لئے ای سی او کو یورپ کے لئے ایک گیٹ وے کو ترقی دینی دینی چاہیئے۔
بشکیک، کرغیزستان سے ارکن کمالوف اور دوشنبے، تاجکستان سے نادین بہروم نے اس رپورٹ کی تیاری کے لئے معاونت کی۔