پشاور - خیبر پختونخواہ (کے پی) کے حکام نے امن کی بحالی کے بعد، حال ہی میں قبائلی پٹی میں اپنا اولین آثارِ قدیمہ کا سروے انجام دیا ہے اور ورثہ کی 110 جگہوں کو دریافت کیا ہے جس میں پتھر پر بنائی گئی 30,000 سالہ پرانی کاریگری بھی شامل ہے۔
افواج جنہوں نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشنِ ضربِ عضب کا آغاز کیا تھا، نے قبائلی علاقے سے عسکریت پسندوں کو نکال باہر کرنے سے اس سروے کو ممکن بنایا ہے۔
خیبر ایجنسی کی سیاسی انتظامیہ جسے پاکستانی فوج اور کے پی کے آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹریٹ کی مدد حاصل تھی، نے دو ماہ طویل پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز کیا۔
حکام نے دسمبر کے آغاز میں اعلان کیا کہ ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے ماقبل تاریخ، بدھ مت، اسلامی اور برطانوی دور سے تعلق رکھنے والی جگہوں کی دستاویز بندی کی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ 2014 سے جاری بہت سی عسکری اور سیکورٹی کی مہمات جس میں آپریشن ضربِ عضب بھی شامل ہے، نے سروے کرنے والے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے لیے ایک پرامن ماحول تخلیق کیا۔
آثارِ قدیمہ میں پیش رفت
برطانوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے نو آبادیاتی دور کے دوران اس علاقے میں کھدائی کرنے کے لیے ابتدائی کام کیا تھا مگر مقامی مزاحمت اور دشوار گزار راستوں نے ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ یہ بات کے پی کے ڈائریکٹر برائے آثارِ قدیمہ و عجائب گھر، عبدالصمد نے بتائی۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم نے علاقے میں پیش رفت کی ہے۔ کامیابی کی اس کہانی کے پیچھے موافق حالات کی وجہ موجود ہے جو کہ امن و امان کی بہتر صورتِ حال کے باعث پیدا ہوئے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ فوج کی طرف سے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی شکست نے "سروے کے آغاز کے لیے راہ ہموار کی جو کہ اپنی طرح کا پہلا سروے قرار دیا جا سکتا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "ہماری پوری قبائلی پٹی، خصوصی طور پر خیبر ایجنسی، مختلف ادوار کی آثار قدیمہ کی جگہوں سے بھری ہوئی ہے جنہیں اگر ٹھیک طریقے سے کھوجا جائے تو وہ دنیا کے سامنے بہت کچھ آشکار کر سکتی ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "قبائلی علاقوں میں دوسری جگہوں پر بھی کھدائی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اور ہمیں ایک خط ملا ہے جس میں علاقے کی نقشہ بندی کرنے میں غیر ملکی دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ علاوہ ازیں، کے پی کے آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹریٹ نے حال ہی میں وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے سیکرٹریٹ کو تجویز کیا کہ وہ مستقبل میں کھدائی کرنے کے لیے آثارِ قدیمہ کا شعبہ قائم کرے اور سیاحت کو حاصل کرنے کے لیے قبائلی علاقوں میں عجائب گھر بنائے۔
تاریخ اور ورثہ کو محفوظ کرنا
خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ خالد محمود نے کہا کہ "جمرود تحصیل کو پہلے سروے کی جگہ کے طور پر منتخب کیا گیا تھا جس کے لیے کے پی کے آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹریٹ کی طرف سے تکنیکی مدد فراہم کی گئی تھی مگر ابتدائی مراحل میں ہماری کامیابیوں نے ہمارے حوصلے اس قدر بلند کیے کہ ہم نے باڑا، لنڈی کوتل اور بعد میں دور دراز کی تیراہ وادی میں بھی کوششوں کا آغاز کر دیا"۔
انہوں نے کہا کہ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو خیبر ایجنسی میں بہت سی تاریخی عمارات کی باقیات ملی ہیں جس سے قبائلی علاقوں کے پہاڑوں کے نیچے چھپے وسیع ثقافتی اور تاریخی خزانوں کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "امن و امان کی بہت بہتر صورت حال اور پاکستان فوج کی طرف سے اضافی امداد نے اس قدم کو اٹھانے میں ہماری مدد کی اور خیبر ایجنسی میں سروے کا آغاز کیا گیا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں پورا یقین ہے کہ امن کی بحالی کے ساتھ ماہرین آثارِ قدیمہ کو مزید آثار ملیں گے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم دنیا کو علاقے کے بھرپور ثقافتی ورثہ سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں"۔
محمود نے کہا کہ "ہم خیبر ایجنسی میں تاریخی مقامات کو محفوظ کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ قبائلی علاقے کے پی کے عہد قدیم قانون 2016 کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور کچھ علاقے جہاں یہ آثار دریافت کیے گئے ہیں وہ قبائلی افراد کی ملکیت ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکام زمین کے مالکان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ ان علاقوں کو محفوظ رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ 34 سرنگوں کی بھول بھلیوں سے گزرنے والے 17 کلومیٹر طویل ٹرین کے راستے کو بحال کرنے کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرین کو دوبارہ سے زندہ کرنے سے سیاحت کا شعبہ بحال ہو گا اور قبیلوں کے سماجی اور اقتصادی حالات کے لیے دیرپا فوائد حاصل ہوں گے۔
ماقبل تاریخ کی باقیات کی کھدائی
"ہم خوش قسمت ہیں کہ ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے بغیر کسی کھدائی کے پہلی کوشش میں ہی یہ دریافتیں کر لی ہیں"۔ یہ بات کے پی کے ڈائریکٹریٹ آف آرکیالوجی کے اسسٹنٹ ریسرچ افسر اور اس دریافت کو کرنے والی ٹیم کے نگران نعمان انور نے کہی۔ اس ٹیم میں ڈائریکٹریٹ کے پانچ ارکان اور خیبر سیاسی انتظامیہ کے دس ملازم شامل تھے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "جو کچھ بھی حاصل کیا گیا ہے وہ ٹیم کو فوج کی طرف سے مہیا کیے گئے سازگار ماحول اور سیاسی انتظامیہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی مدد کے بغیر ایک ناقابل تسخیر کام ہوتا"۔
انہوں نے کہا کہ جمرود میں دریافت ہونے والے مقامات میں لووارا مینا غاروں کے اندر نقاشی جو کہ تیس ہزار سال پرانی ہے، شامل ہے۔ انور کے مطابق، ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے اس جگہ کی عمر کا تعین اس سے ملنے والی چیزوں اور پتھروں پر کی گئی نقاشی جس میں شکار کے مناظر دکھائے گئے تھے اور آبیکس اور گیدڑوں کی تصاویر کا موازنہ مردان کی سنگھو غار سے حال ہی میں ملنے والی تصاویر سے کرنے کے بعد لگایا گیا ہے جس کی کھدائی کا آغاز ماہرین آثارِ قدیمہ نے گیارہ سال پہلے کیا تھا۔
انور نے کہا کہ سروے کرنے والے ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے خیبر ایجنسی میں زمین کے اوپر دریافتیں کی ہیں مگر ابھی انہیں کھدائی کا کام کرنا ہے کیونکہ سیکورٹی کے بارے میں خدشات موجود ہیں۔ "مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ صورت حال بہتر ہو رہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ آثارِ قدیمہ کی مزید مہمات کو قبائلی علاقوں میں بھیجا جائے گا جو کہ تاریخی اہمیت کی جگہوں سے بھرے ہوئے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "ہم لنڈی کوتل، باڑا اور دور دراز کی تیراہ وادی میں مزید جگہیں کھولنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جہاں سیکورٹی فورسز کی "صفائی کی مہمات" کے بعد حالات قابلِ اطمینان ہوتے جا رہے ہیں۔ تاہم، ہماری کوششیں زیادہ منظم اور نتیجہ خیز ہوں گی اگر فاٹا سیکریٹریٹ ایک باقاعدہ آرکیالوجی کا شعبہ قائم کر دے"۔