پشاور - پاکستان کے اقلیتی گروہ، جنہیں دہشت گردوں نے کئی دیہائیوں سے نشانہ بنایا ہے، پاکستان کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی تعریف کر رہے ہیں جنہوں نے ان کی مسلسل حفاظت اور سیکورٹی کو یقینی بنانا جاری رکھا ہے۔
پشاور کے مصافات میں واقع، کرسچین کالونی پر دو ستمبر کو ہونے والے حملے نے خیبر پختونخواہ (کے پی) کی اقلیتوں کو پریشان کر دیا تھا مگر سیکورٹی افواج کے فوری ردعمل اور مبینہ ملزمان کی فوری گرفتاری سے انہوں نے سکون کا سانس لیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ایک ذیلی تنظیم جماعت الاحرار نے وارثق روڈ پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ حملہ آور جنہوں نے خودکشی کی جیکٹیں پہن رکھی تھیں، نے سیکورٹی افواج کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا جنہیں ہیلی کاپٹروں کی مدد حاصل تھی۔ پاکستانی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ وہ چاروں ہلاک ہو گئے۔
دو فوجی، ایک پولیس افسر اور دو سویلین سیکورٹی گارڈ زخمی ہو گئے۔
فوج کے ترجمان لفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجودہ نے چھبیس ستمبر کو پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پاکستان کی سیکورٹی افوج نے حملوں کے فوری بعد، ان کے تین سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ چوتھا ملزم افغانستان فرار ہو گیا ہو۔
باجوہ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو مزید سراغ ملے ہیں جن سے دوسرے منصوبہ شدہ حملوں کو روکا جا سکے گا۔
باجوہ نے تین ملزمان کی گرفتاری کو "ایک اہم کامیابی" قرار دیا۔
دریں اثنا، سرحد پار سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے لیے، پاکستانی افواج افغان سرحد کے ساتھ مورچے تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے سرحد کے لیے منصوبہ کردہ چوکیوں میں سے بیس فیصد کو مکمل کر لیا ہے۔ باجوہ نے کہا کہ ان چوکیوں پر فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "انسدادِ دہشت گردی کی مہم خیبر تھری، پاکستان-افغان سرحد پر کامیابی سے جاری ہے۔ راجگال کا علاقہ صاف کر دیا گیا ہے۔ ہم دراندازی کے تمام خطرات کو ختم کرنے کے لیے چوکیاں قائم کر رہے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ جولائی سے اب تک، پاکستان افواج نے انٹیلیجنس کی بنیاد پر 1,470 مہمات سر انجام دی ہیں، چودہ دہشت گردانہ حملوں کو ناکام بنایا ہے اور دو ستمبر کو مردان ڈسٹرکٹ عدالتوں پر ہونے والے خودکش دھماکوں میں ملوث پورے نیٹ ورک کو گرفتار کیا ہے۔
ان خودکش حملوں میں تیرہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
آپریشن ضربِ عضب کی تعریف
پشاور سے تعلق رکھنے والے، آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ اور اقلیتوں کے حقوق کے لئے قومی لابنگ وفد کے رکن، ہارون سربدیال نے کہا کہ "غیر مسلم اقلیتی برادری کرسچین کالونی پر حملے کے سہولت کاروں کی فوری گرفتاری کی بہت تعریف کر رہی ہے اور ہم انہیں جلد از جلد مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے اور سزا پاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں"۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "قانون نافذ کرنے والے اداروں کے انسدادی اقدامات بہت زیادہ بہتر ہو گئے ہیں جس سے عام شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے"۔
"پشاور کے شہری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ زندگی اب اس سے زیادہ محفوظ ہے جتنی پانچ سال پہلے تھی"۔ انہوں نے اس کا سہرا آپریشن ضربِ عضب کے سر باندھا جس نے "دہشت گردی کے نیٹ ورک کی کمر توڑ دی ہے"۔
فوج نے ضربِ عضب کا آغاز جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں کیا تھا۔ یہ مہم ابھی تک جاری ہے۔
پشاور سکھ برادری کے راہنما اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن سردار جتندر سنگھ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم اپنی قوم اور پاکستان کے دفاع کے لیے تیار ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "کرسچین کالونی پر ناکام حملے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں دہشت گردوں کی طرف سے کسی بھی بزدلانہ حملے کو ناکام بنانے کے لیے تیار ہیں۔ کرسچین کالونی اور مردان عدالت پر حملوں میں ملوث دہشت گرد نیٹ ورک کو توڑنا قانون نافذ کرنے والوں کی بہت بڑی کامیابی ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "ہم یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں اور ہم دہشت گردوں کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ پاکستان کو یرغمال بنائیں۔ خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہم سب ان سے جنگ کرنے کے لیے متحد ہیں"۔
پشاور کے وکیل شوکت غلام نے کہا کہ پاکستان کی مسیحی برادری، وارثق روڈ پر تباہی کو روکنے اور ملزمان کو گرفتار کرنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شکرگزار ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اقلیتوں کو نشانہ بنانا صرف پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ ہم یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ دہشت گرد پاکستانیوں کو خواہ وہ عیسائی، ہندو، سکھ یا کوئی بھی ہو، شکست نہیں دے سکتے ہیں۔ ہم سب ایک ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ کے پی اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں عیسائیوں کے دوسرے محصور علاقوں کی حفاظت کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔
"مگر یہ بہت حوصلہ زیادہ حوصلہ افزا ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں نے اس نیٹ ورک کو توڑ دیا ہے جس نے کرسچین کالونی اور مرادن عدالتوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی"۔
قانون نافذ کرنے والے انتہائی چوکنا
کے پی کی صوبائی اسمبلی کی خاتون رکن نگہت اورکزئی نے کہا کہ "کرسچین کالونی اور مردان کے حملہ آوروں کی ہلاکت اور گرفتاری اس بات کا واضح پیغام ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کو ان نمونوں کو ناکام بنانے کے لیے انتہائی چوکنا ہیں"۔
پشاور یونیورسٹی کی طالبہ سعدیہ اقبال نے کہا کہ "ہمیں انتہائی تیزی سے ردعمل دینا ہو گا جیسا کہ ہم نے کرسچین قالونی کے حملے میں کیا۔ یہ دہشت گردوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ ہم پر اندھیرے میں حملہ کرنے کی ہمت نہ کرو، ہماری افواج تم سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں"۔
پشاور کے ایک کالج کے تالب علم رحیم دل یار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ کرسچین کالونی کے واقعہ میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری "قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عام شہریوں کے لیے بہت بڑی کامیابی اور حوصلہ افزا بات ہے"۔