دہشتگردی

پاکستان عبدالستار ایدھی کی موت پر سوگوار

از جاوید محمود

عبدالستار ایدھی کے 88 سال کی عمر میں وفات پانے کے ایک روز بعد، ہزاروں سوگواران 9 جولائی کو کراچی میں ان کی نمازِ جنازہ میں شریک ہیں۔ [جاوید محمود]

عبدالستار ایدھی کے 88 سال کی عمر میں وفات پانے کے ایک روز بعد، ہزاروں سوگواران 9 جولائی کو کراچی میں ان کی نمازِ جنازہ میں شریک ہیں۔ [جاوید محمود]

کراچی - انسان دوست اور سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی موت پر سوگوار پاکستانی ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے ان کے مقصدِ حیات کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔

پشاور کے مقامی دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "وہ لوگ جو عسکریت پسندی میں ملوث ہیں انہیں اس ہیرو کی زندگی سے سبق سیکھنا چاہیئے۔ انہیں چاہیئے کہ بنی نوع انسان کو تکلیف دینا ترک کر دیں۔"

ایدھی 88 برس کی عمر میں کراچی میں 8 جولائی کو انتقال کر گئے اور انہیں ایک روز بعد، ایدھی ویلیج، سہراب گوٹھ، کراچی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ کراچی میں نیشنل اسٹیڈیم میں ہزاروں افراد نے ان کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ وہ ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی تھے، ایک این جی او جس نے 60 برس سے زائد عرصہ یتیموں اور بے گھر افراد کی خدمت کی۔ ان کے نعرے "انسانیت سب سے بڑا مذہب" کو ملک گیر پزیرائی حاصل ہوئی۔

ایدھی نے مثال بن کر جینے کی کوشش کی

مارچ 2009 میں ڈیلی ٹائمز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "میرا ایمان ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب کی بنیاد انسانیت میں ہے۔ خود انسانیت کی بنیاد مذہب میں ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہر ضرورت مند کی مدد کرنا میرا نصب العین ہے۔"

امن، ہم آہنگی کو فروغ

تجزیہ کاروں نے کہا کہ ایدھی پہلے پاکستانی سویلین تھے جنہیں تدفین سے قبل فوجی گارڈ آف آنر اور 19 توپوں کی سلامی دی گئی۔

اعلیٰ ترین حکومتی عہدیداران، بشمول صدر ممنون حسین اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔

وفاقی حکومت نے ایدھی کے لیے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ سندھ حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔

وفاقی حکومت نے ایدھی کو بعد از مرگ اعلیٰ ترین سویلین اعزاز، نشانِ امتیاز سے نوازا۔

سیاسی تجزیہ کار اور اسلام آباد کے مقامی تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ایدھی " نے ایک پیغام کو مجسم کیا جو عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے لیے [تباہی] ہے -- مذہب، نسلی یا لسانی تعصب کے بغیر انسانیت کی خدمت کرنا۔"

گل نے مزید کہا، "انہوں نے ہر اس شخص کو شرم دلائی جو پیسے یا طاقت کے زور پر اقتدار اور شہرت حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔"

شاہ نے کہا، "پاکستانیوں کو ان جیسے ہیرو کی ضرورت ہے۔ نہ کہ ان [عسکریت پسندوں] کی جو امن کو تباہ کرتے ہیں اور مذہب کے نام پر خون بہاتے ہیں۔ ایدھی ۔۔۔ نے کسی بھی قسم کے جبر کی بھرپور مخالفت کی ۔۔۔ انہوں نے ہمیشہ امن اور ہم آہنگی کی وکالت کی۔"

احترام اور خدمت کی زندگی

انسان دوست کے بیٹے، فیصل ایدھی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سنہ 1951 میں، ایدھی نے ۔۔۔ کراچی کے کھارادر علاقے میں ایک ڈسپنسری قائم کی۔ سنہ 1957 میں، انہوں نے ۔۔۔ ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز کیا، جسے انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ بنا دیا۔"

انہوں نے 9 جولائی کو اپنے والد کی تدفین کے بعد کہا، "میرے والد نے اپنی تمام زندگی اور وسائل محروم، دھتکارے ہوئے اور ضرورت مند پاکستانیوں کے لیے وقف کر دیئے۔ میں اس مشن کو آگے بڑھاؤں گا۔"

فیصل نے کہا کہ ان کے والد کے "انسانیت سب سے بڑا مذہب" کے نعرے کا مقصد امن اور سب کے لیے فلاح و بہبود کو فروغ دینا اور خونریزی کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔

کراچی کی مقامی چھیپا ویلفیئر فاؤنڈیشن کے بانی، محمد رمضان چھیپا نے 9 جولائی کو کراچی میں کہا کہ ایدھی "نے ہمیشہ امن کی وکالت کی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔"

انہوں نے کہا، "ہم ایدھی کی کمی محسوس کریں گے لیکن غربت اور عدم مساوات کو کم کرنے اور انتہاپسندی کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ان کے مشن کو وابستگی، ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے ہمیں ان جیسے مزید ہیروز کی ضرورت ہے۔"

پوری انسانیت کے ساتھ اخلاص

اردو روزنامہ پاکستان اخبار کے کراچی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر، مبشر میر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ایک خاندانی مسئلے نے ایدھی کو اس راستے پر ڈال دیا تھا۔

میر نے کہا، "جب ان کی عمر محض 11 سال تھی ۔۔۔ گجرات، ہندوستان میں، سنہ 1939 [تقسیم سے پہلے] میں، ان کی دماغی طور پر بیمار والدہ کو فالج ہو گیا۔"

ایدھی نے والدہ کی وفات تک خود کو ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے وقف کر دیا، اس وقت ان کی عمر 19 سال تھی۔

میر نے کہا، "وہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔"

سنہ 1957 میں ان کی فاؤنڈیشن کے عاجزانہ آغاز کے بعد، یہ کثیر خدمات پیش کرنے کے لیے وسیع ہوئی -- جن میں دیگر خدمات کے علاوہ ایمبولنسز، یتیم خانے، بے گھروں کے لیے دارالامان، اسکول، پناہ گزینون کی معاونت، غرباء کے لیے مفت کھانے، جانوروں کی پناہ گاہیں اور شادی اور تدفین میں معاونت شامل ہیں۔

میر نے کہا کہ ضرورت مندوں کی مناسب طریقے سے دیکھ بھال انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کو جڑیں پکڑنے سے روک سکتی ہے۔

اسلام آباد کی ایک سماجی کارکن، سعدیہ شکیل نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ جب متعصب افراد نے ان سے سوال کیا کہ ان کی ایمبولنسیں ہندو اور عیسائی مریضوں کو کیوں لے جاتی ہیں تو ایدھی کا جواب ہوتا تھا، "میری ایمبولنسیں آپ سے زیادہ مسلمان ہیں۔"

سعدیہ نے کہا، "ایدھی نے ۔۔۔ خود پر بھروسہ کرنے میں لاکھوں افراد کی مدد کی۔ انہوں نے ذات، فرقہ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر ہزاروں بے دخل کردہ لوگوں کو اپنایا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500