پناہ گزین

دریائے ہلمند کے پانی کے تنازع پر ایران کی جانب سے افغانوں کے لیے اجتماعی سزا کا سہارا

عمران

حکومتِ ایران کی جانب سے حال ہی میں ملک بدر کیے جانے والے افغان پناہ گزینوں کا دعویٰ ہے کہ ایرانی پولیس نے دریائے ہلمند کے پانی کے تنازع پر اجتماعی سزا کی ایک شکل کے طورپر ان پر تشدد کیا اور ان کا روپیہ پیسہ اور سامان ضبط کر لیا۔ [عمران/سلام ٹائمز]

ہرات -- حکومتِ ایران کی جانب سے حال ہی میں ملک بدر کیے جانے والے افغان پناہ گزینوں کا دعویٰ ہے کہ ایرانی پولیس نے دریائے ہلمند کے پانی کے تنازع پر اجتماعی سزا کی ایک شکل کے طورپر ان پر تشدد کیا اور ان کا روپیہ پیسہ اور سامان ضبط کر لیا۔

ایران اور افغانستان کے مابین پانی پر تازہ ترین تنازہ اس وقت شروع ہوا جب ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے 18 مئی کو افغان حکام پر ایران کو دریائے ہلمند سے اس کے "آبی حقوق" فراہم کرنے کی ذمہ داری پوری نہ کرنے کا الزام لگایا۔

انہوں نے دھمکی آمیز زبان استعمال کرتے ہوئے افغانستان پر 1973 کے ایک معاہدے کے تحت اپنا عہد پوار کرنے یا ایران کے قانونی آبی حقوق فراہم کرنے میں ضروری تعاون پیش کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا۔

صوبہ بغلان کے سابق رہائشی شاہ منصور رجبی نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب اسے اس کی کام کی جگہ سے گرفتار کیا گیا، تب وہ صوبہ مزاندران، ایران میں اپنے دو ساتھی کارکنان کے ہمراہ تعمیراتی کام کر رہا تھا۔

25 جولائی کو ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ کے ایک پناہ گزین کیمپ کے اندر ایران سے ملک بدر افغان پناہ گزین دیکھے جا سکتے ہیں۔[عمران/سلام ٹائمز]

25 جولائی کو ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ کے ایک پناہ گزین کیمپ کے اندر ایران سے ملک بدر افغان پناہ گزین دیکھے جا سکتے ہیں۔[عمران/سلام ٹائمز]

اس 28 سالہ تعمراتی کارکن نے کہا، ”ایرانی پولیس نے مجھے ذدوکوب کیا اور مجھ سے میرا روپیہ اور موبائل فون لے لیا۔ انہوں نے ہمیں ایک حراستی مرکز میں منتقل کر دیا، جہاں انہوں نے تین دن اور رات تک ہمیں مناسب خوراک یا پانی نہیں دیا۔“

رجبی نے کہا، ”ایرانی پولیس ہمیں کہتی تھی کہ ہم پر تشدد ہونا چاہیئے اور ہمیں ایران میں رہنے کا کوئی حق نہیں کیوں کہ افغانستان نے دریائے ہلمند کا پانی مسدود کر دیا ہے۔“

اس نے مزید کہا، ”انہوں نے ہمارے سامنے تین نوجوان افغانوں کو اس بری طرح پیٹا کہ ان کے بازو اور ٹانگیں توڑ دیں۔ وہ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ وہ سب افغانوں کو ملک بدر کر دیں گے۔“

اس نے کہا، ”حکومتِ ایران اس وقت سے ملک بھر میں افغانوں پر دباؤ ڈال رہی ہے جب سے دریائے ہلمند کے پانی کے تنازعہ میں اضافہ ہوا ہے، جس سے ایران میں افغان پناہ گزینوں کے لیے زندگی نہایت مشکل ہو گئی ہے۔“

رجبی کو 25 جولائی کو ایران سے ملک بدر کیا گیا اور اسے ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ (یو این) کے پناہ گزین کیمپ میں عارضی پناہ ملی ہے۔

اس نے ایران میں اپنے قیام سے متعلق کہا، ”اس ملک میں وقت گزارنا نہایت تکلیف دہ ہے۔“

صوبہ ڈائیکنڈی کے سابق باشندے اللہیار محمدی، جو ایران سے ملک بدر کر دیا گیا اور اقوامِ متحدہ کے ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے، نے کہا کہ حکومتِ ایران دریائے ہلمند کے پانی کے تنازع کو ملک بدر کیے جانے کے لیے ایک بہانہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

43 سالہ نے کہا، ”میں تہران میں چار دیگر افغانوں کے ہمراہ کام کر رہا تھا جب پولیس آئی اور ہم سب کو یہ کہتے ہوئے حراست میں لے لیا کہ 'تم نے ہم پر پانی بند کر دیا؛ ہم تمھاری خوراک بند کر دیں گے۔'“

اس نے کہا، ”بیکریاں ہمیں روٹی نہیں دیتیں، اور اگر انہیں پتہ چل جائے کہ ہم افغان ہیں تو وہ ہمیں دکانوں میں بھی نہیں گھسنے دیتے۔ پولیس کو جہاں بھی افغان ملتے ہیں وہ انہیں پیٹتے ہیں، ان کی ہتک کرتے اور انہیں بے عزت کرتے ہیں۔“

ملک بدریوں میں اضافہ

صوبہ ہرات کے سرحدی پھاٹک پر امورِ پناہ گزین کے انچارج، عبداللہ قیومی نے کہا کہ ہر روز 2,000 اور 3,000 کے درمیان افغانوں کو اسلام قلعہ سرحدی پھاٹک کے راستے ملک بدر کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ملک بدر ہونے والوں کی گزشتہ تعداد کے برعکس ہے، جو عموماً یومیہ 1,500 سے 2,000 کے درمیان تھی۔

قیومی نے کہا، ”اکثر ملک بدر پناہ گزین حکومتِ ایران سے متعلق شکایت کرتے ہیں، جس میں قابلِ ذکر ایرانی پولیس کی جانب سے انہیں حراساں کیا جانا اور ان کا روپیہ لے لیا جانا ہے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ چند افغان پناہ گزینوں کے پاس پاسپورٹ ہیں، لیکن ایرانی پولیس ان کے پاسپورٹ ضبط کر کے انہیں ملک بدر کر دیتی ہے۔

صوبہ بدخشاں کے 26 سالہ سابق باشندے محب اللہ زاہد کو حال ہی میں ایران سے ملک بدر کیا گیا اور وہ ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے۔

زاہد نے کہا کہ اس نے صوبہ فارس، ایران میں گرم موسم میں 15 روز ایک تعمیراتی منصوبے پر کام کیا۔ جب اس نے اپنے آجر سے تنخواہ کا مطالبہ کیا تو آجر نے اس کے لیے پولیس کو بلا لیا، اور اسے بنا تنخواہ دیے ملک بدر کر دیا گیا۔

اس نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی حکام ایران – اکثر پانی کے مسئلہ کو بہانا بنا کر— میں افغان پناہ گزینوں کے خلاف کاروائی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

زاہد نے کہا، ”ہر مرتبہ جب ایرانی پولیس مجھے مارتی، وہ پوچھتے کہ ہم نے دریائے ہلمند سے پانی کیوں بند کیا۔“

”وہ حراستی مراکز تک لے جاتے ہوئے اور مراکز کے اندر زیرِ حراست پناہ گزینوں، یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں سے بھی بدسلوکی کرتے۔“

انہوں نے مزید کہا، ”ایرانی پولیس اور ڈرائیور ہم سے زبردستی پیسے لے لیتے اور جو پیسے نہیں دیتے انہیں بری طرح سے پیٹتے۔“

زاہد نے کہا، ”افغانستان اور ایران کے درمیان دریائے ہلمند کے پانی سے متعلق تنازع کے بعد سے ایرانی آجر افغان کارکنان کو تنخواہیں نہیں دیتے۔“

اس نے کہا، ”جب ہم پولیس کے پاس گئے، انہوں نے ایرانی آجروں کی پشت پناہی کی اور ہمیں فوراً حراست میں لے کر ملک بدر کر دیا۔“

افغانستان میں قحط سالی

حکومتِ ایران نے ایسے وقت میں اپنے آبی حقوق کا تقاضا کیا ہے جب افغانستان شدید قحط سالی سے دوچار ہے اور جب کسان اپنی زمین پر کاشتکاری نہیں کر پا رہے۔

ضلع چہار بورجک، صوبہ نمروز کے 48 سالہ کسان نیاز محمد نے کہا کہ وہ رواں برس قحط کے دوران کاشتکاری نہیں کر سکتا۔

اس نے کہا، ”نمروز میں دریائے ہلمند میں پانی بالکل نہیں، شدید قحط سالی کی وجہ سے کمال خان ڈیم خالی ہے۔ ایران کی جانب چھوڑے جانے کے لیے پانی نہیں ہے۔“

اس نے مزید کہا، ”ہم پیاسے ہیں، اور ہماری زمینوں پر کاشتکاری کے لیے پانی نہیں ہے، ہم ایران کو کیسے پانی دے سکتے ہیں؟“

محمد نے کہا کہ کئی دہائیوں سے ایران کو دریائے ہلمند سے اس کے حصہ سے زیادہ پانی ملا ہے، اور اسے افغانستان کو ادائگی کرنی چاہیئے۔

ہرات شہر کے ماحولیات دان خلیل احمد فقیری نے کہا کہ افغانستان ماحولیاتی تبدیلی سے شدید طور پر متاثر ہے اور اسے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

انہوں نے اس امر کا حوالہ دیتے ہوئے کہ معاہدے کے مطابق، پانی کی قلت کی صورت میں افغانستان ایران کو پانی دینے کا پابند نہیں ہے، کہا، ”افغانستان اور ایران کے درمیان 1973 کا دریائے ہلمند کے پانی کا معاہدہ اس وقت کی صورتِ حال پر مبنی تھا۔“

انہوں نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”قحط سالی اور پانی کی قلت کے سبب، حکومتِ ایران کو اپنے آبی حقوق کے لیے افغانستان پر دباؤ ڈالنے کا کوئی حق نہیں۔“

فقیری نے کہا، ”دریائے ہلمند کے پانی کے معاہدے کے ایک فریق کے طور پر، حکومتِ ایران نے اس معاہدے کے تحت اپنے عہد کو کبھی پورا نہیں کیا۔“

انہوں نے مزید کہا، ”کئی برسوں سے اس نے معاہدے میں طے شدہ مقدار سے زیادہ پانی وصول کیا، لیکن بدلے میں اس نے افغانستان کو کچھ نہیں دیا۔“

”حکومتِ ایران نے افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب گہرے کنویں بھی کھود رکھے ہیں، جس سے وہ دریا سے غیر قانونی طور پر پانی بہا لے جا رہے ہیں۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500