دہشتگردی

عسکریت پسندوں کے تشدد سے بچ جانے والے پاکستانی کا خوف کے بغیر زندگی گزارنے کا عزم

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

یہ تصویر جو 19 جولائی کو لی گئی تھی، میں شہباز تاثیر کو لاہور میں اپنے مرحوم والد، صوبہ پنجاب کے سابق گورنر، سلمان تاثیر کی پینٹنگ کے ساتھ پوز دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ تقریباً پانچ سال تک، اسلام پسند عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تشدد سہنے اور قید میں رہنے والے تاثیر کہتے ہیں کہ وہ بھول گئے کہ مسکرانا کیسا محسوس ہوتا ہے۔ اب انہوں نے بے خوف ہو کر رہنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ تاثیر کو 2011 میں اغوا کیا گیا تھا اور 2016 میں رہا کر دیا گیا تھا۔ [آمنہ یاسین/اے ایف پی]

یہ تصویر جو 19 جولائی کو لی گئی تھی، میں شہباز تاثیر کو لاہور میں اپنے مرحوم والد، صوبہ پنجاب کے سابق گورنر، سلمان تاثیر کی پینٹنگ کے ساتھ پوز دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ تقریباً پانچ سال تک، اسلام پسند عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تشدد سہنے اور قید میں رہنے والے تاثیر کہتے ہیں کہ وہ بھول گئے کہ مسکرانا کیسا محسوس ہوتا ہے۔ اب انہوں نے بے خوف ہو کر رہنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ تاثیر کو 2011 میں اغوا کیا گیا تھا اور 2016 میں رہا کر دیا گیا تھا۔ [آمنہ یاسین/اے ایف پی]

لاہور -- تقریباً پانچ سال تک اسلام پسند عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تشدد سہنے اور قید میں رہنے والے شہباز تاثیر کہتے ہیں کہ وہ بھول گئے کہ مسکرانا کیسا محسوس ہوتا ہے۔ اب اس نے بے خوف رہنے کا تہیہ کر لیا ہے۔

وہ ایک ممتاز کاروباری اور سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے ہیں اور اگست 2011 میں ان کا اغوا، پاکستان کے سب سے مشہور ترین واقعات میں سے ایک تھا۔

تاثیر، جن کی عمر 39 سال ہے، نے اے ایف پی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ "مجھے یاد ہے کہ یہ احساس کتنا اجنبی تھا۔ میں بہت عرصے تک نہیں ہنسا۔"

ان کی کتاب "لوسٹ ٹو دی ورلڈ" کی ریلیز گزشتہ نومبر میں اس وقت ہوئی جب اگست 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد، افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد پر تشدد اور بھتہ خوری میں اضافہ ہو رہا تھا۔

سلمان تاثیر کو لاہور میں ان کے گھر کے قریب سے اغوا کیا گیا تھا، اس سے کئی ماہ پہلے ان کے والد سلمان -- اس وقت کے صوبہ پنجاب کے گورنر -- کو ایک محافظ نے ملک کے سخت توہین رسالت کے قوانین میں تبدیلی کی حمایت کرنے پر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

سلمان نے آسیہ بی بی کی حمایت کی تھی، جو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کی جانے والی ایک مسیحی خاتون تھیں، جس کے مقدمے کے بارے میں عالمی سطح پر خبریں دی گئی تھیں اور اس نے گورنر اور ان کے خاندان کو اسلام پسند انتہا پسندوں کے شکنجے میں پھنسا دیا۔

نشہ دیا، بھیس بدلا، اسمگل کیا

تاثیر کو اسلامی تحریک ازبکستان (آئی ایم یو) نے اغوا کیا تھا -- جو کہ ایک ایسا گروہ ہے جس پر پاکستان میں کئی ہائی پروفائل حملوں کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس میں 2014 میں، کراچی ایئرپورٹ میں زبردستی داخل ہونے کا واقعہ بھی شامل ہے جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

تاثیر کو کیٹامائن کا نشہ دے کر، برقعے میں چھپا کر لاہور سے میر علی، جو کہ شمالی وزیرستان کے ضلع کا ایک ایسا قصبہ ہے، جو افغانستان کے ساتھ سرحد کی وجہ سے طویل عرصے سے عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ رہا ہے، سڑک کے کنارے لگی چوکیوں کے ذریعے اسمگل کر کے پہنچایا گیا۔

پاکستان کی ملٹری انٹیلی جنس کے مطابق علاقے کے سب سے وحشیانہ پرتشدد گروہوں میں شامل ہونے کے لیے، آئی ایم یو نے بھاری تاوان اور تقریباً 30 قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا -- تاثیر کے مطابق وہ مطالبات پورے نہیں کیے جا سکے تھے۔

پاکستان کی ملٹری انٹیلی جنس کے مطابق آئی ایم یو جو کہ علاقے کے سب سے وحشی پرتشدد گروہوں میں سے ایک ہے، نے بھاری تاوان اور تقریباً 30 قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا -- تاثیر کے مطابق وہ مطالبات پورے نہیں کیے جا سکے تھے۔

تاثیر نے کہا کہ "انہوں نے مجھے انتہائی خوفناک طریقے سے تشدد کا نشانہ بنانا اور ویڈیوز بنانا شروع کر دیں۔"

یہ ویڈیوز ان کے اہل خانہ کو بھیجی گئی تھیں، جس کو تاثیر نے "بہت غیر انسانی اور انتہائی ذلت آمیز" قرار دیا تھا۔

"آپ ایک شخص پر تشدد نہیں کر رہے، آپ بہت سے لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں۔

کسی زمانے میں مراعات یافتہ تاثیر کو، فرش پر زنجیروں سے جکڑا گیا اور چھ ماہ سے زیادہ عرصے تک صرف بکری کی چربی اور روٹی کھلائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ "میں نے انسان محسوس کرنا ہی چھوڑ دیا تھا، اور انسانی جذبات سے میں کسی قسم کا تعلق بھی نہیں رکھ سکتا تھا۔"

"میں نے ایک جانور کی طرح محسوس کیا۔"

ازبک گروہ کا 2015 میں، افغانستان میں دوسرے باغیوں کے ساتھ تصادم ہوا اور وہ ہار گیا۔ فاتحین نے تاثیر کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

مہینوں بعد، فروری 2016 میں، انہیں اس وقت رہا کر دیا گیا جب ان کے اغوا کاروں کو معلوم ہوا کہ ان کے ایک اعلی رہنما نے، ازبک عسکریت پسندوں سے ان کی رہائی کے لیے مذاکرات کی کوشش میں، پاکستانی حکومت کی مدد کی تھی۔

ایک ہفتے تک، اس نے افغان صوبے اروزگان سے جنوب مغربی پاکستان کے ایک قصبے کا سفر کیا، جہاں وہ سڑک کے کنارے ایک ریستوران سے اپنی والدہ کو فون کرنے میں کامیاب رہے۔

"پہلی چیز جو میں نے مانگی وہ ایک پے فون تھا، اور (مالک) نے کہا کہ 'پے فونز دو، تین سال سے متروک ہو گئے ہیں۔'

'آگے لمبا راستہ ہے'

اتفاق سے، تاثیر کی رہائی اسی دن ہوئی جب ان کے والد کے قاتل کو پھانسی دی گئی تھی: 29 فروری 2016۔

تاثیر کے خاندان پر حملوں نے توہین رسالت کے قوانین سے متعلق پاکستانی معاشرے میں تقسیم کو بے نقاب کیا جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ مزید وسیع ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "میں دیکھ رہا ہوں کہ ان میں سے کچھ (توہین رسالت مخالف) انتہا پسند گروہ اب سیاسی جماعتوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اور اس سے مجھے پریشانی ہوتی ہے۔"

"میں نہیں چاہتا کہ (میرے بچے) ایک عدم برداشت والے معاشرے میں پروان چڑھیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ سوال پوچھنے کے قابل ہوں... اور انہیں اس پر قتل نہ کیا جائے۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو فکر اور مذہب کے تنوع کا روادار معاشرہ بننے کے لیے "ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے"۔

تاہم، وہ اس بات پر قائم ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے مسائل میں سے کچھ کے ذرائع -- "عسکریت پسندی، انتہا پسندی اور مذہبی انتہا پسند گروہوں" -- کے پاس بہت کم جائز طاقت ہے اور وہ اقلیت میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "شاید (پاکستانی) ہمارے مذہب کی وجہ سے قدامت پسند لوگ ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انتہا پسند ہیں۔

"دنیا میں بہت کم ممالک ایسے ہوں گے جنہوں نے عسکریت پسندی اور انتہا پسند عسکریت پسندی کی وجہ سے ہمارے جتنا نقصان اٹھایا ہو۔"

قید میں اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے باوجود، تاثیر نے سیکیورٹی کی سفارشات کی بنیاد پر، اپنی رہائی کے بعد سے پاکستان کی کسی بھی مسجد میں قدم نہیں رکھا ہے۔

پھر بھی، وہ کہتے ہیں کہ وہ ملک چھوڑنا نہیں چاہتے اور خوف میں نہیں رہنے کا عزم رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "آپ کو زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور آپ کو اپنی شرائط پر جینا چاہیے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500