تاشقند — ازبکستان بین الاقوامی برادری کو شمالی افغانستان میں شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے متعلق متنبّہ کر رہا ہے اور دیگر وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے سیکیورٹی تعاون کو مستحکم کر رہا ہے۔
8 دسمبر کو ہیمبرگ میں منعقدہ یورپ میں سلامتی و تعاون کی تنظیم (او ایس سی ای) کی مجلسِ وزراء کی 23 نشست میں ازبکستانی وزیرِ خارجہ عبدالعزیز کامل اوف نے کہا کہ افغانستان میں جاری سرگرمی سے وسط ایشیائی خطہ کو خطرہ درپیش ہے۔
ان خدشات کے ردِّ عمل میں وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان اپنی سرحدوں کی حفاظت اور شدت پسندوں کے مشترکہ خطرہ کے خاتمہ کے لیے کام کر رہے ہیں۔
آپس میں لڑنے والے دہشتگرد
شمالی افغانستان میں شدت پسندانہ سرگرمی میں اضافہ کی ایک وجہ عسکریت پسند گروہوں کے مابین اندرونی لڑائی ہے۔
کئی برسوں تک تحریکِ اسلامیٔ ازبکستان (آئی ایم یو) ان ازبکستانی عسکریت پسندوں پر مشتمل رہی جو اپنے وطن سے فرار ہو کر افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کے حلیفوں کے طور پر کام کر رہے تھے۔
2015 میں اس کے کمانڈر عثمان غازی نے اپنی وفاداری ”دولتِ اسلامیۂ عراق و شام“ (آئی ایس آئی ایل) کی جانب منتقل کر دی۔ بعد ازاں اسی برس طالبان نے صوبہ زابل، افغانستان میں ایک لڑائی میں آئی ایم یو کے بیشتر ارکان کو قتل کیا۔ تب سے غازی کی کچھ خبر نہیں۔
اسی برس، آئی ایم یو کی خاموشی کے کئی ماہ بعد، جون میں خود کوآئی ایم یو کے بچ جانے والے ارکانکے طور پر ظاہر کرنے والا ایک گروہ سوشل میڈیا پر نمودار ہوا اور کہا کہ وہ اب طالبان میں شامل ہو رہے ہیں۔
درایں اثناء، زیادہ تر متعدد ممالک سے ازبک النسل افراد پر مشتمل ایک دیگر عسکریت پسند گروہ، امام بخاری جماعت (آئی بی جے)، کئی برسوں سے شام کی سرکاری افواج کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے۔
صوبہ ادلِب، شام میں آئی ایس آئی ایل کے ہمراہ لڑنے والی آئی بی جے نے بھی اسی طرح جولائی میں طالبان کے ساتھ اپنے الحاق کا عہد کیا۔
آئی ایم یو کے باقیات پہلے ہی افغانستان میں کام کر رہے ہیں، لیکن مبینہ طور پر آئی بی جے افغانستان میں نقل مکانی کر رہے ہیں کیوں کہ شام میں عسکریت پسندوں کو شکستوں کے ایک سلسلہ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ انخلاء افغانستان میں مزید عسکریت پسندوں کا پیش خیمہ ہے۔
دوسری جانب آئی ایس آئی ایل – قلیل مدت تک آئی ایم یو کا حلیف اور اب دوبارہ سے حریف – افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کرتا رہا ہے، لیکن طالبان اسے ایک حریف خیال کرتے ہیں اور اسے کچلنے کے لیے پرعزم ہیں۔
مشاہدین متوحش
اقوامِ متحدہ سیکیورٹی کاؤنسل کی 30 نومبر کو شائع ہونے والی، افغانستان کی صورتِ حال پر دسمبر کی ماہانہ پیش گوئی کے مطابق، افغان اور اتحادی افواج نے آئی ایس آئی ایل کی افغان شاخ کو دستیاب علاقۂ عملداری میں نمایاں حد تک کمی کی ہے۔
اقوامِ متحدہ جیسے مشاہدین کا کہنا ہے کہ تاہم صوبہ ننگرہار میں اس کے گھر سے باہر پھیلنے سے معذوری کی وجہ سے ملک بھر میں شام سے بھاگے ہوئے آئی بی جے عسکریت پسندوں اور آئی ایم یو کے باقی ماندہ عسکریت پسندوں کے لیے ایک خلاء پیدا ہو جاتا ہے، جو کہ اپنے آبائی ممالک پر دوبارہ دھاوا بول سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، اقوامِ متحدہ سیکیورٹی کاؤنسل کی تجزیاتی معاونت اور منظوریوں کی نگرانی کی ٹیم نے اپنی 4 اکتوبر کی افغانستان میں سلامتی کی صورتِ حال پر ساتویں رپورٹمیں کہا کہ صوبہ ہلمند میں متعدد ازبک و تاجک النسل عسکریت پسند موجود ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی ٹیم نے لکھا، ”افغان حکام کا ماننا ہے کہ وہ کاتِبت امام بخاری گروہ [آئی بی جے] ارکان ہو سکتے ہیں، جنہوں نے تحریکِ طالبان کے نئے سربراہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔۔۔ جو گزشتہ طور پر شام کی عرب جمہوریہ سے افغانستان منتقل ہوا۔ سینیئر افغان حکام نے اندازہ لگایا کہ افغانستان میں ان جنگجوؤں کی موجودگی کا مقصد تجربہ اور نیٹ ورک کا حصول اور ممکنہ صورتِ حال میں ان کے آبائی ممالک میں لوٹ جانے کے لیے ملک کے شمالی اور شمال مشرقی صوبوں میں حمائتیوں کا ایک نیٹ ورک بنانا تھا۔“
اقوامِ متحدہ کی ٹیم نے اکتوبر میں تنبیہ کی، ”افغانستان میں کام کرنے والے دہشتگرد کرداروں کا مربوط نیٹ ورک اس امر کو واضح کرتا ہے کہ خطرہ افغانستان ہی تک محدود نہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں اس میں پورے خطے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری میں سرائیت کرنے کی صلاحیّت ہے۔“
دہشتگردوں کی ممکنہ جنّت
شمالی افغانستان – جس کی سرحد تین وسط ایشیائی ریاستوں سے ملتی ہے—عسکریت پسندوں کی نقل مکانی کے لیے زرخیز زمین بن سکتا ہے اور یہ وسط ایشیائی ممالک کو متنبّہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
تاشقند سے تعلق رکھنے والے ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ امید اسات اللہ ژیو نے کاروان سرائے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”شمالی افغانستان وسط ایشیا سے منشیات سمگلنگ چینلز سے قربت کے ساتھ ساتھ ازبکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے قریب رہنے والی بڑی ازبک اور تاجک آبادیوں کی وجہ سے شدّت پسندوں کے لیے نہایت پر کشش ہے۔“
کثیر النسل افراد کی بڑی آبادیاں عسکریت پسندوں کو خود کو مخلوط کر لینے اور ہمدرد حاصل کرنے کے قابل بنا سکتی ہیں۔
ایشیا فاؤنڈیشن کے 2012 کے ایک سروے کے مطابق، افغان آبادی کا 9 فیصد ازبک النسل اور 33 فیصد تاجک کے طور پر اپنی شناخت کراتے ہیں۔
شام اور عراق میں میں آئی جے بی جیسی تنظیمیں [عربوں کے مابین] اور صرف بیرونی ممالک سے بھرتی شدہ حامیوں کے ساتھ اپنی بنیادیں قائم نہیں کر سکتی۔ ”اگر وہ [اپنے ہی نسلی گروہوں] کے انتشار میں کام کریں تو ان کی کاروائی کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔“
عسکریت پسندوں کے مابین علاقائی معاونت
افغانستان میں آنے والے وسط ایشیائی عسکریت پسندوں کی مبینہ فطرت سے واقف، خطے کے حکام ایک مشترکہ حکمتِ عملی تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قازقستان، قرغیزستان، تاجکستان، ازبکستان اور آزاد ریاستوں کی دولتِ مشترکہ (سی آئی ایس) کے دیگر ممالک کے انٹیلیجنس ایجنسی ماہرین نے 7 دسمبر کو بشکیک میں مشاورتی اجلاس منعقد کیا۔
سی آئی ایس کے مرکز برائے انسدادِ دہشتگردی پریس آفس کے مطابق، ”اصل موضوع۔۔۔ خطے میں واپس لوٹنے والے غیرملکی عسکریت پسند دہشتگردوں کے تناظر میں سلامتی اور وسط ایشیا میں بھرتی کی کاروائیوں کی روک تھام تھا۔“
اکتوبر میں تنظیم نے آئندہ مئی اور جون میں تاجکستان میں انسدادِ دہشتگردی کی مشترکہ مشقیں منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔
اسی اثناء میں افغانستان اور اس کے ہمسائے عسکریت پسندوں کو ان کے راستے سے اتارنے کے لیے عسکری، سفارتی اور یہاں تک کہ نچلی سطح کے متعدد اقدامات بھی کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر اکتوبر میں ازبکستان اور افغانستان کے حکام نے تاشقند میں ایک دوسرے کے شدت پسندوں اور دیگر مجرموں کی حوالگی کو ممکن بنانے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
شمالی افغانستان کے صوبوں فریاب اور جاوزجان میںترکمان النسل اقلیت کی جانب سے تشکیل دیے گئے سیلف ڈیفنس برگیڈ ”آربیکی“ طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔.
درایں اثناء افغان افواج شمال میں تشکیل پانے والے کسی بھی فرقے سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کو ہلاک یا انہیں نکال باہر کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر آپریشن کر رہی ہیں۔
روزمرّہ آپریشنز میں بڑے پیمانے کی کاوشوں میں شفق 1 اور 2 شامل ہیں، جن میں سے آخرالذکر کا آغاز 9 دسمبر کو ہوا۔
مارچ میں ہونے والے شفق 1 میں مبینہ طور پر قندھار، زابل، ارزگان اور دائیکنڈی کے صوبوں میں درجنوں عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔
افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان جنرل دولت وزیری نے کاروان سرائے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان افواج شمال میں ان ازبک عسکریت پسندوں کے خلاف ثابت قدمی سے معرکہ آراء ہیں جو افغانستان اور اس کے ہمسایوں کے امن و استحکام کے لیے خطرہ کا باعث ہیں۔
[کابل سے اعزازاللہ نے اس رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا۔]
عسکریت پسندوں کا اندرونی خلفشار شمالی افغانستان میں عسکریت پسندانہ سرگرمی میں اضافہ کی وجوہات میں سے ایک عسکریت پسند گروہوں کے مابین اندرونی خلفشار ہے۔ وہ آپس میں کیوں لڑ رہے ہیں ان کا ذریعہٴ آمدنی کیا ہے
جوابتبصرے 5
افغانستان میں تبدیلی کے بعد کی صورتِ حال 1- طالبان، حقانی، ازبک عسکریت پسند سب اقتدار کے حصول کے خواہاں 2- ٹرمپ نکلنا چاہتا 3- غنی کا ایک حریف ہے – سب پیسہ لوٹنے کے لیے 4- غنی بھارت کا زیادہ ساتھ دیتا ہے پاکستان کے لیے بہتر ہو گا کہ انتظار کرے اور دیکھے
جوابتبصرے 5
ازبکستان کی آزادی سے اب تک ازبک عسکریت پسند افغانستان میں مقیم ہیں!
جوابتبصرے 5
ڈیورنڈ لائن ایک غلیظ لکیر ہے۔ پشتون کسی صورت اس لکیر کو قبول نہ کریں گے۔ اس قسم کی جانبدارانہ تحریر میں صحت نہیں ہو سکتی۔ اب مجھے علم ہوا کہ پشتونوں کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ قبل ازاں میں کہا کرتا تھا کہ پشتونوں کو محض مجبوری کی وجہ سے بھرتی کیا جا رہا ہے، لیکن انہیں پنجابیوں کے ہاتھ فروخت کیا جا رہا ہے۔
جوابنبی خیل کہتا ہے کہ پشتونوں کو صرف لازم ہونے کی وجہ سے بھرتی کیا جاتا ہے، لکین انہیں پنجابیوں کے ہاتھوں فروخت بھی کر دیا جاتا ہے۔
جوابکون سے پنجابی
پاکستانی پنجاب – یہ ایک بیوقوفانہ تبصرہ ہے
بھارتی پنجابی – یہ بھی ایک لغو بات معلوم ہوتی ہے
تبصرے 5