کییو – حقوق کے فعالیت پسند ایسی جیلوں کی تعداد میں اضافہ کو داخلِ دستاویز کر رہے ہیں جن میں روسی حکومت یوکرینی شہریوں کو غیرقانونی طور پر رکھے ہوئے ہے۔
جنگی جرائم کی پیروی اور ان کی تفتیش کرنے والی ایک کییو اساسی این جی او، میڈیا انیشیٹیو فار ہیومن رائیٹس کے مطابق، روس میں ایسی 100 سے زائد تنصیبات کام کر رہی ہیں۔
اس تنظیم کی ڈائریکٹر اولہا ریشیتائیلوفا نے کاروانسرائے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ایسی جیلوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔“
انہوں نے کہا، ”ہم رہا ہونے والے اسیروں کے سرویز کی بنیاد پر یہ دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو روس کے مزید اندر منقل کیا جا رہا ہے۔“
ایسوسی ایٹڈ پریس نے حال ہی میں حکومتِ روس کی ایک دستاویز حاصل کی جس میں بتایا گیا کہ روس 2026 تک یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں 25 نئی جیلوں کے ساتھ ساتھ چھ حراستی مراکز کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
مبینہ طور پر مقبوضہ یوکرینی دیہات اور شہروں میں روسی فوج کے ارکان یوکرینی فوج کی حمایت کے خفیف شبہ پر یا یہاں تک کہ یوکرین موافق ہونے یا یوکرینی زبان بولنے پر یوکرینیوں کو زیرِ حراست لے رہے ہیں۔
یوکرینی پارلیمان کے کمشنر برائے حقوقِ انسانی دمئیترو لوبینیٹس کے مطابق، اس وقت روسی 25,000 سے زائد ”شہری یرغمال“ رکھے ہوئے ہیں۔
ریشیتئیلوفا نے کہا، ”وہ مختلف مقامات پر شہریوں کو رکھے ہوئے ہیں۔“
پہلے زیرِ حراست افراد کو مقبوضہ علاقہ میں مقامی تھانے یا کسی حراستی مرکز میں لایا جاتا ہے، اور پھر انہیں روس میں اصلاحی مراکز جیسی طویل المدتی حراستی تنصیبات میں منتقل کیا جاتا ہے۔
ریشیئیلوفا نے کہا، ”ہر مرحلے پر انہیں تشدد یا غیرانسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے“، جبکہ اسیر بیان کرتے ہیں کہ نام نہاد ”خیرمقدم“ آزمائش کا خوفناک ترین حصہ ہوتا ہے۔
ریشیئیلوفا نے کہا، ”جب انہیں کسی نئی جگہ لایا جاتا ہے، انہیں تشدد اور ذدوکوب کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو کئی گھنٹوں تک جاری رہتا ہے۔“
کئی ماہ طویل تشدد
صوبہ ژیپوریژیژیا کی رہائشی اولینا ییگوپوفا نے روسی حراست میں چھ ماہ گزارے اور معجزانہ طور پر نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔
اس نے خود کو درپیش تشدد کو بیان کیا۔
روسیوں نے یاگوپوفا کو اس کے گھر میں نظربند رکھا کیوں کہ اس کا خاوند یوکرینی فوج میں ہے۔
اس نے کہا، ”روس لوگوں کے ایک دوسرے کی مخبری کرنے کا خیرمقدم کرتا ہے۔ وہ اسے مذمت کہتے ہیں۔ آپ کو ڈکیتی کرنے کے پیسے ملتے ہیں – فی کس 10,000 ربل [111 ڈالر] فی کس۔“
یاگوپوفا نے کہا، ”انہوں نے ایک تحقیق کی اور کہا کہ کسی نے میرے متعلق ایک شکایت لکھی ہے۔ لیکن انہیں میرے گھر میں کچھ نہیں ملا، اور وہ مجھے مقامی تھانے لے گئے۔ انہوں نے کئی دنوں تک مجھے تشدد کا نشانہ بنایا۔“
اس نے کہا اس کے بعد کے کئی ماہ اس کی زندگی کے خوفناک ترین مہینے تھے۔
اس نے کہا، ”انہوں نے میرا سر پٹخا اور مجھے سر پر گہری چوٹ آئی، انہوں نے دو لیٹر کی ایک بوتل سے میرے سر پر مارا۔ یہ قادراوفیوں [چچن لیڈر رمضان قادراوف کے فوجیوں] نے کیا۔“
”پھر 'ڈونیٹسک پیپلز ریپبلک' اور ایف ایس بی[رشیئن فیڈرل سیکیورٹی سروس] نے ایک میز کے ساتھ میرے ہاتھ پیر باندھ دیے۔ میں نیم خمیدہ کیفیت میں تھی۔“
یاگوپوفا نے یاد کرتے ہوئے کہا، ”ان میں سے ایک نے میرے سر پر مارا، جبکہ دوسرا پوچھتا رہا، 'تمھارا خاوند کہاں ہے؟ ہمیں بتاؤ کہاں ہے وہ!'۔“
اس نے کہا کہ اگرچہ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا خاوند کہاں ہے، کیوںکہ فوجیوں کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو اپنے محلِ وقوع کے بارے میں بتائیں، روسی ایجنٹس اس پر تشدد کرتے رہے۔
یاگوپوفا نے کہا، ”وہ مجھے کہتے رہے، 'ہم تمہاری یاداشت کو جھنجھوڑیں؟' اور انہوں نے ایک بوتل کے ساتھ میرے سر پر مارا اور پھر میرے سر پر ایک تھیلا ڈال دیا اور میرے گردن کے گرد ٹیپ لپیٹ دی۔“
”وہ ہوا بند کر دیتے یہاں تک کہ آپ کرسی کے ہمراہ گر جاتے اور لرزہ طاری ہو جاتا۔“
یاگوپوفا نے کہا کہ روسیوں نے اسے اور دیگر ”یرغمال شہریوں“ کو سپاہیوں کے لیے خندقیں کھودنے پر بھی مجبور کیا۔
یاگوپوفا نے کہا، ”وہ ہمیں تحفظ کے ساتھ گاڑیوں پر ایسے لے جاتے جیسے ہم کام پر جا رہے ہیں، وہ صبح 6 بجے وہاں لے جاتے اور بعد از مغرب ہمیں واپس لاتے۔ ایسے بھی مواقع تھے کہ ہم نے صبح 4 بجے تک کھدائی کی۔ بندوق بردار لوگ ہم پر روشنیاں ڈالتے۔“
آزاد ہونے والے دیگر قیدیوں نے ایسی کہانیاں بتائیں جو یاگوپوفا کی تشدد کی تصویر کشی اور کارکنان کے استحصال کی تائید کرتی ہیں۔
صوبہ ڈونیٹسک کی حقوق کی فعالیت پسند لئیودمیلا حسینوفا نے کاروانسرائے کو بتایا کہ اسے 2019 میں ایسے علاقہ میں یوکرینی ادب لانے پر گرفتار کیا گیا جو کییو کے زیرِ انتظام نہ تھے۔ اسے گزشتہ اکتوبر میں ہی رہا کیا گیا۔
حسینوفا نے کہا، ”2022 سے اب تک، مجھ جیسے دسیوں ہزاروں شہری تھے جنہیں گرفتار کیا گیا۔“
انہوں نے کہا، ”جنہیں پہلے ہی اصلاحی تنصیبات میں منتقل کر دیا گیا اور جنہیں پہلے ہی سزائیں ہو چکی ہیں، انہیں مزدوروں کے طور پر استعمال کیا گیا۔“
انہوں نے کہا، ”مثال کے طور پر صوبہ ڈونیٹسک میں سنیژن اصلاحی تنصیب میں عورتوں کو روسی فوجیوں کے لیے وردیاں یا زیرجامے سینے پر مجبور کیا جاتا۔“
”پھر اختتامِ ہفتہ پر وہ عورتیں 50 کلو کوئلہ کی بوریاں یا پانی کی بالٹیاں لے جاتیں کیوںکہ وہاں پانی نہیں ہے۔“
کریملن کی گولاگ نظام کی جانب واپسی
حقوقِ انسانی کے فعالیت پسندوں کے مطابق، کریملین گولاگ نظام کی جانب واپس لوٹ رہا ہے – ایک سوویت دور کا کیمپوں کا نظام جو تمام تر سوویت یونیئن میں پھیلے تھے اور ان میں ہزاروں باغیوں کو رکھا جاتا۔
کییو کے انسانی حقوق کے فعالیت پسند ایڈوارڈ بیگیروف نے کہا کہ قابض حکام کا مقصد مقامی آبادی کو خوفزدہ کرنا ہے ”تاکہ وہ حکام کی جانب سے نافذ شدہ نئے قوانین و ضوابط کے خلاف آواز نہ اٹھائیں۔“
یوکرینی شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی لیگ کے سربراہ، باگیروف کے مطابق، شہریوں کے لیے یہ جیلیں نفسیاتی دباؤ کا ایک طریقہ ہیں تاکہ عوامی مزاحمت کو توڑا جا سکے۔
انہوں نے کاروانسرائے سے بات کرتے ہوئے کہا، ”یہ غیر مبہم طور پر [جینیوا کنوینشن] اور انسانی حقوق کی ایک شدید خلاف ورزی ہے۔“
حقوق کے فعالیت پسندوں کا کہنا ہے کہ کریملین یرغمال شہریوں کو یوکرین پر دباؤ کے لیے اضافی عنصر کے طور پر استعمال کررہا ہے۔
ریشیتئیلوفا نے کہا، ”روس یوکرینی حکام اور بین الاقوامی برادری، ہر دو سے بھتہ خوری کے لیے انہیں حراست میں رکھ رہا ہے۔ یوکرین مصر ہے کہ شہری یرغمالوں کو غیر مشروط طور پر آزاد کر دیا جانا چاہیئے۔“
انہوں نے یہ حوالہ دیتے ہوئے کہ 2014 میں روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والے منسک معاہدہ میں بھی روس مزاکرات کے دوران اسی قسم کی بھتہ خوری میں ملوث رہا، کہا کہ ”ممکن ہے کہ روس انہیں مزاکرات کے لیے سوداگری کے حتمی پت٘ے کے طور پر ہاتھ میں رکھے ہوئے ہو۔“
ریشیتئیلوفا اور کام میں ان کی دیگر ساتھیوں نے اس امر کے لیے ایک منصوبہ تشکیل دیا ہے کہ یوکرین کو ان یرغمال شہریوں کی رہائی کے لیے کیا کرنا چاہیئے، جس میں ایک خصوصی ایجنسی کی تشکیل شامل ہے جو اس عمل کی ذمہ دار ہو۔
ریشیتئیلوفا نے کہا، ”ہمیں اس لیے ایسا کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس وقت یوکرینی قیدی جہنم کے ایک نہ ختم ہونے جالے چکر سے گزر رہے ہیں۔“