تجزیہ

یوکرین کی جنگ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کی حیثیت کے لیے خطرہ

از پاکستان فارورڈ

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ماہِ ستمبر میں۔ [ایڈ جونز/اے ایف پی]

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ماہِ ستمبر میں۔ [ایڈ جونز/اے ایف پی]

یوکرین کے خلاف روس کی جنگ اور فروری میں اس کے حملے کے بعد ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے اور اسے اقوامِ متحدہ (یو این) کی سلامتی کونسل سے نکالنے کے لیے تحریک شروع کر دی ہے۔

یوکرین اس سے قبل روس کو عالمی ادارے سے نکالنے کے لیے لابنگ کر چکا ہے۔

فارن پالیسی میگزین نے 14 دسمبر کو خبر دی تھی کہ یورپ میں سلامتی اور تعاون کے کمیشن (ہیلسنکی کمیشن) پر بیٹھنے والے امریکی قانون سازوں نے امریکی کانگریس میں ایک بل پیش کیا ہے جس میں امریکہ سے روس کو کونسل سے نکالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جریدے نے کہا کہ ہیلسنکی کمیشن چاہتا ہے کہ کانگریس یہ دلیل دے کہ روس کی جنگ نے "اقوامِ متحدہ کے مقاصد اور اصولوں" کی خلاف ورزی کی ہے، اور حکومتی اداروں سے کہا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ میں روس کی مراعات کو محدود کریں۔

فارنزک ٹیکنیشن 18 ستمبر کو مشرقی یوکرین کے شہر ازیوم کے مضافات میں ایک جنگل میں اجتماعی قبر کے مقام پر ایک لاش بیگ لے جاتے ہوئے۔ یوکرین کے حکام نے روس کے زیرِ تسلط شہر ازیوم کے باہر تقریباً 450 قبریں دریافت کی ہیں جن میں سے کچھ لاشوں پر تشدد کے نشانات نظر آ رہے ہیں۔ [جوآن باریتو/اے ایف پی]

فارنزک ٹیکنیشن 18 ستمبر کو مشرقی یوکرین کے شہر ازیوم کے مضافات میں ایک جنگل میں اجتماعی قبر کے مقام پر ایک لاش بیگ لے جاتے ہوئے۔ یوکرین کے حکام نے روس کے زیرِ تسلط شہر ازیوم کے باہر تقریباً 450 قبریں دریافت کی ہیں جن میں سے کچھ لاشوں پر تشدد کے نشانات نظر آ رہے ہیں۔ [جوآن باریتو/اے ایف پی]

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن 15 دسمبر کو ماسکو سے باہر ویڈیو لنک کے ذریعے روسی کونسل برائے تزویراتی ترقی و قومی منصوبہ جات کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے۔ [میخائل میزل/سپتنک/اے ایف پی]

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن 15 دسمبر کو ماسکو سے باہر ویڈیو لنک کے ذریعے روسی کونسل برائے تزویراتی ترقی و قومی منصوبہ جات کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے۔ [میخائل میزل/سپتنک/اے ایف پی]

مسودۂ قانون کہتا ہے کہ روس نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی "صریح خلاف ورزیوں" کا ارتکاب کیا ہے جو سلامتی کونسل کی نشست رکھنے کے اس کے حق پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔

فارن پالیسی میگزین نے کہا کہ ان خلاف ورزیوں میں "یوکرائن کے چار اوبلاستوں [صوبوں] میں غیر قانونی الحاق کا ووٹ، بوچا جیسے یوکرینی شہروں میں مظالم کا ارتکاب، جوہری تباہی اور دنیا کی خوراک کی فراہمی کے لیے خطرات پیدا کرنا" شامل ہیں۔

میگزین نے یاد دلایا کہ قانون سازی قانونی طور پر پابند نہیں ہے لیکن روسی اثر و رسوخ کو روکنے کے بارے میں "سوچ کو مستحکم کرتی ہے"۔

جنگی جرائم اور مظالم

وسط نومبر کے ایک خطاب میں، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روسی فوجیوں پر صوبہ خیرسن میں 400 سے زائد جنگی جرائم اور "مظالم" کرنے کا الزام عائد کیا تھا، جس کے ساتھ روس نے 30 ستمبر کو غیر قانونی طور پر الحاق کر لیا تھا۔

انہوں نے کہا، "روسی فوج نے اپنے پیچھے وہی وحشیانہ کارروائیاں چھوڑی ہیں جو اس نے ملک کے دوسرے علاقوں میں کی تھیں"۔

بی بی سی نے خبر دی کہ یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل آندرے کوسٹن نے ستمبر میں کہا تھا کہ ان کے دفتر نے روسی افواج کی جانب سے کیے جانے والے 34,000 ممکنہ جنگی جرائم کی دستاویز بندی کی ہے اور نسل کشی کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

اس نے کہا، "یوکرین کے کئی حصوں میں اجتماعی تدفین کی جگہیں ملی ہیں جو پہلے روسی فوجیوں کے قبضے میں تھیں، جن میں کچھ شہریوں کی لاشیں ملی ہیں جن پر تشدد کے نشانات واضح ہیں"۔

"اپریل میں، کیف کے مضافات میں واقع قصبے بوچا میں 400 سے زائد شہریوں کی لاشیں ملی تھیں۔ ستمبر میں، 450 لاشیں -- زیادہ تر عام شہریوں کی -- خارکیف کے علاقے ازیوم میں اجتماعی قبروں سے ملی تھیں"۔

بی بی سی نے مزید کہا، "مارچ میں، روسی افواج نے ماریوپول میں ایک تھیٹر پر فضائی حملہ کیا جو بچوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔" مارچ میں ماریوپول کے ایک ہسپتال پر بھی حملہ ہوا تھا۔

23 مارچ کو، روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے تقریباً ایک ماہ بعد، امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے اعلان کیا تھا کہ امریکی حکومت کے جائزے میں، "روسی افواج کے ارکان نے یوکرین میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے"۔

بلنکن نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بلا اشتعال اور غیر منصفانہ جنگ شروع کرنے کے بعد سے "بے لگام تشدد کا آغاز کیا ہے جس سے یوکرین میں ہلاکتیں اور تباہی ہوئی ہے"۔

انہوں نے کہا، "ہم نے اندھا دھند حملوں اور حملوں اور دانستہ طور پر عام شہریوں کو نشانہ بنانے، نیز دیگر مظالم کی متعدد مصدقہ رپورٹیں دیکھی ہیں"۔

"روسی افواج نے اپارٹمنٹس کی عمارتوں، سکولوں، ہسپتالوں، اہم بنیادی ڈھانچے، سویلین گاڑیوں، خریداری کے مراکز اور ایمبولینسوں کو تباہ کر دیا ہے، جس سے ہزاروں بیگناہ شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا، "روس کی افواج نے جن مقامات کو نشانہ بنایا ہے ان میں سے بہت سی جگہوں کی واضح طور پر شناخت کی گئی ہے کہ وہ عام شہریوں کے زیرِ استعمال ہیں،" بشمول ماریوپول میٹرنٹی ہسپتال۔

روس کی ساکھ تباہ

یوکرین میں روسی فوجی کارروائیوں نے ایک فوجی طاقت کے طور پر روس کی ساکھ کو بری طرح کم کر دیا ہے -- اور اس کی سپر پاور کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

11 اکتوبر کو سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں، امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ پیوٹن نے یوکرین پر اپنے حملے میں "کافی حد تک غلط اندازہ لگایا"۔

بائیڈن نے کہا کہ ان کا نہیں خیال کہ روس تزویراتی جوہری ہتھیار استعمال کرے گا لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ پیوٹن کی دھمکیوں کا بھی غیر مستحکم اثر ہے جو فیصلے میں ممکنہ غلطیوں کا سبب بن سکتا ہے۔

بائیڈن نے کہا، "میرے خیال میں اس کے لیے اس بارے میں بات کرنا غیر ذمہ دارانہ ہے، یہ خیال کہ دنیا کی سب سے بڑی جوہری طاقتوں میں سے ایک کے عالمی رہنماء کا کہنا کہ وہ یوکرین میں تزویراتی جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے"۔

بروکنگز انسٹیٹیوشن کے سینئر فیلو سٹیون پائفر نے 8 دسمبر کی ایک رپورٹ میں لکھا، "جبکہ جنگ یوکرین اور یوکرینیوں کے لیے ایک المیہ رہی ہے، لیکن یہ روس کے لیے بھی ایک تباہی ثابت ہوئی ہے -- عسکری، اقتصادی اور جغرافیائی طور پر"۔

انہوں نے کہا، "جنگ نے روس کی فوج کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے اور اس کی ساکھ کو داغدار کیا ہے، معیشت کو درہم برہم کیا ہے، اور یورپ میں ماسکو کو درپیش جغرافیائی سیاسی تصویر میں گہری تبدیلیاں کر دی ہیں"۔

"اس سے امریکہ اور روس کے تعلقات میں کسی حد تک معمول کی بحالی کا حصول اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا"۔

یوکرین کے سابق وزیر دفاع آندرے زگورودنیوک نے 13 ستمبر کو اٹلانٹک کونسل کے تجزیے میں لکھا کہ یوکرین کے دفاع کی کامیابی نے "ایک فوجی سپر پاور کے طور پر روس کی ساکھ کے پیچھے بوسیدہ حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے"۔

انہوں نے کہا، "یوکرین میں روسی فوج کی مشکلات پیوٹن کی آمرانہ حکمرانی کی حدود کو اجاگر کرتی ہیں،" ان کا مزید کہنا تھا کہ روسی رہنماء "اپنے ہی پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے" ان کمانڈروں کے ساتھ "جو اتنے خوفزدہ ہیں کہ اس کی مخالفت نہیں کر سکتے"۔

انہوں نے کہا، "سنہ 2022 کے اوائل میں جمع ہونے والی حملہ آور فوج اس کام کے لیے بری طرح ناکافی تھی، لیکن یوکرین کی تباہی کے بارے میں پیوٹن کے ذاتی جنون کا مطلب یہ تھا کہ کسی نے اسے خطرات سے خبردار کرنے کی ہمت نہیں کی"۔

"اس کی بجائے، روسی فوج کے ناقابلِ تسخیر ہونے پر پیوٹن کے اندھے اعتماد اور یوکرین کی غیر قانونی حیثیت پر اس کے اصرار کو مزید سنجیدہ فوجی فیصلوں پر غالب آنے دیا گیا"۔

ایران - ایک بین الاقوامی شودر ریاست جو دیوالیہ ہونے کے قریب ہے کیونکہ اسے پابندیوں کا بھی سامنا ہے - پر روسی فوج کا نیا انحصار کریملن کے سامنے مشکلات کی شدت کی صرف ایک مثال ہے کیونکہ اس کے بہت چھوٹے پڑوسی کے ہاتھوں شکست نوشتۂ دیوار ہے۔

لیکن یہ مایوسی اور تنہائی کی سطح کی تمثیل ہے جس میں روس یوکرین کے خلاف جنگ کے نتیجے میں ڈوب گیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500