سلامتی

دنیا بھر کی پیوٹن کی یوکرین پر غیر قانونی جارحانہ جنگ کی مذمت

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے 21 فروری کو مشرقی یوکرین میں روس کی پشت پناہی کے حامل دو علیحدہ ہو جانے والے خطوں کو تسلیم کرنے کے حکم نامے پر دستخط کیے۔ اس اقدام نے عالمی غم و غصے کو بھڑکا دیا کیوںکہ کائیو کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ یہ یوکرین کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔ [الیکسے نکولسکی/سپوٹنک/اے ایف پی]

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے 21 فروری کو مشرقی یوکرین میں روس کی پشت پناہی کے حامل دو علیحدہ ہو جانے والے خطوں کو تسلیم کرنے کے حکم نامے پر دستخط کیے۔ اس اقدام نے عالمی غم و غصے کو بھڑکا دیا کیوںکہ کائیو کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ یہ یوکرین کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔ [الیکسے نکولسکی/سپوٹنک/اے ایف پی]

ماسکو – منگل (22 فروری) کو عالمی برادری نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ایک منتخب شدہ غیر قانونی جنگ اور جارحیت کو لے کر چلنے کے فیصلے کی مذمت کی جبکہ روسی افواج یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے قریب تر آ گئیں۔

زیادہ سے زیادہ ڈرامہ کے لیے تشکیل دیے گئے، محتاط طور پر ترتیب شدہ واقعات میں، پیوٹن نے پیر کو باغیوں کے زیرِ قبضہ ڈونیٹسک اور لوہانسک خطوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا قلم چلایا، اور ان کے ساتھ "دوستی اور باہمی معاونت" کے معاہدوں پر دستخط کیے۔

ان کے دفتر سے 56 منٹ دورانیہ کے ٹیلی ویژن پر دکھائے گئے ان کے خطاب، جس میں وہ بیشتر غصہ میں نظر آئے، میں پیوٹن نے کہا کہ یوکرین "روس کا بنایا ہوا ایک ملک" ہے، انہوں نے کہا کہ سوویت یونیئن کے ٹکڑے ہونے دینا اور یوکرین اور دیگر سویت جمہوریتوں کو اپنے راستے جانے دینا غلط تھا۔

اس تقریر کے کچھ گھنٹوں بعد، پیوٹن نے اپنی وزارتِ دفاع کو علیحدگی پسندوں کے زیرِ قبضہ خطوں میں "بقائے امن کا فریضہ" سنبھالنے کا حکم دیتے ہوئے مشرقی یوکرین میں براہِ راست روسی عسکری شمولیت کی راہ ہموار کی۔

21 فروری کو یوکرین کی سرحد کے قریب بیلاروس میں روسی ٹینک دکھائے گئے ہیں۔ [روسی وزارتِ دفاع]

21 فروری کو یوکرین کی سرحد کے قریب بیلاروس میں روسی ٹینک دکھائے گئے ہیں۔ [روسی وزارتِ دفاع]

18 فروری کو یوکرین کے زیرِ انتظام لوہانسک خطے کے ستانئیتسیا لوہانسکا گاؤں کے رہائشی روسی پشت پناہی کے حامل علیحدگی پسندوں کی شیلنگ کے بعد اپنے گھروں سے ملبہ صاف کر رہے ہیں۔ [الیکسے فلیپوف/اے ایف پی]

18 فروری کو یوکرین کے زیرِ انتظام لوہانسک خطے کے ستانئیتسیا لوہانسکا گاؤں کے رہائشی روسی پشت پناہی کے حامل علیحدگی پسندوں کی شیلنگ کے بعد اپنے گھروں سے ملبہ صاف کر رہے ہیں۔ [الیکسے فلیپوف/اے ایف پی]

19 فروری کو مشرقی یوکرین کے قصبہ بونولوہانسکے کے مضافات میں یوکرینی فوجی صفِ اول میں گشت کر رہے ہیں۔ اس روز یوکرین کی فوج نے کہا کہ صفِ اول پر روسی پشت پناہی کے حامل علیحدگی پسندوں کے حملوں میں ان کے دو فوجی حاںبحق ہوئے، جو کہ اس تنازع ایک ماہ سے زائد کے عرصہ میں پہلی اموات تھیں۔ [آرس میسینیس/اے ایف پی]

19 فروری کو مشرقی یوکرین کے قصبہ بونولوہانسکے کے مضافات میں یوکرینی فوجی صفِ اول میں گشت کر رہے ہیں۔ اس روز یوکرین کی فوج نے کہا کہ صفِ اول پر روسی پشت پناہی کے حامل علیحدگی پسندوں کے حملوں میں ان کے دو فوجی حاںبحق ہوئے، جو کہ اس تنازع ایک ماہ سے زائد کے عرصہ میں پہلی اموات تھیں۔ [آرس میسینیس/اے ایف پی]

ایک اندازے کے مطابق، پہلے ہی روس کی 150,000 سے 190,000 کے درمیان فوج یوکرین کو گھیرے ہوئے ہے۔

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلینسکی نے منگل کو کہا، "ہمارا ماننا ہے کہ اس فیصلے سے روس یوکرین کے خلاف مزید عسکری جارحیت کی قانونی بنیاد بنا رہا ہے، لہٰذا تمام ممکنہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ردِّ عمل کے طور پر کیئو روس کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات توڑنے کا سوچ رہا ہے۔

’جنگ کا عذر‘

روس کے اس اقدام نے عاالمی رہنماؤں کی جانب سے بڑے پمانے پر مذمت کو بھڑکایا۔

اقوامِ متحدہ (یو این) سیکیورٹی کاؤنسل نے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا، جس میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرینفیلڈ نے کہا کہ پیوٹن کی تقریر "غصہ سے بھرے جھوٹے دعووں کے ایک سلسلہ" پر مبنی تھی جن کا مقصد "جنگ کا عذر پیدا کرنا" تھا۔

انہوں نے کہا، "وہ انہیں پاسدرانِ امن کہتے ہیں۔ یہ لغو بات ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ درحقیقت کیا ہیں۔"

امریکہ نے اقوامِ متحدہ کو تنبیہ کی ہے کہ روس کے پاس حملے کی صورت میں "مارے جانے والے یا کیمپوں میں بھیجے جانے والے" یوکرینیوں کی فہرستیں ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی انڈر سیکریٹری جنرل برائے امورِ سیاسی و قیامِ امن روزمیری ڈی کارلو نے اس امر پر "دکھ" کا اظہار کیا کہ روسی افواج مشرقی یوکرین کی جانب جانے کا حکم دیا گیا۔

انہوں نے کہا، "آئندہ گھنٹے اور دن نازک ہوں گے۔ ایک بڑے تنازع کا خدشہ حقیقی ہے اور اس کی ہر قیمت پر انسداد ہونی چاہیئے۔"

برطانوی ایلچی باربرا وُڈ ورڈ نے کہا، "روس ہمیں دہانے تک لے آیا ہے۔ ہم روس سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔"

کینیا کے مارٹن کیمانی نے توجہ دلائی کہ متعدد ملکوں نے "اس مملکت کے خاتمہ سے جنم لیا" اور انہوں نے ماضی کی سرحدوں کے "خطرناک عارضہٴ فرقت" سے باز رہنے کا مطالبہ کیا۔

جرمنی نے اعلان کیا کہ وہ روس سے نورڈ سٹریم 2 گیس پائپ لائن کی تصدیق کو روک رہا ہے اور اس نے کہا کہ یورپی یونین "قوی اور جسیم" معاشی پابندیاں اپنائے گی۔

اٹلی کے وزیرِ اعظم ماریو ڈراغی نے کہا، "یہ یوکرین کی جمہوری خودمختاری اور سرحدی سالمیت کی ناقابلِ قبول خلاف ورزی ہے۔"

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی پیوٹن کے اقدام کو "ناقابلِ قبول" قرار دیا۔

آئرلینڈ کے یورپ کے وزیر تھامس بائرنیے نے کہا، "ہمیں یقینی بنانا ہو گا کہ جو بھی ہو روسیوں کو ضرور تکلیف پہنچے۔۔ یہ ہونے جا رہا ہے۔"

برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے پیوٹن کے اقدام کو "یوکرین کی خودمختاری اور سالمیت کی صریح خلاف ورزی" قرار دیا، جبکہ ان کے وزیرِ خارجہ نے روس پر نئی پابندیوں کا وعدہ کیا۔

یورپی یونین کے سربراہان ارسلا وون ڈیر لیژین اور چارلس مائیکل نے عہد کیا کہ یہ بلاک "اس غیر قانونی اقدام میں ملوث کے خلاف پابندیوں کی صورت میں ردِّ عمل دے گا۔"

امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے پیوٹن کی تقریر کو "ایک خودمختار اور آزاد یوکرین کے تصور پر ایک حملہ" قرار دیا۔

اس عہدیدار نے ٹیلی کانفرنس کے ذریعے صحافیوں کو بتایا، "انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ یوکرین کو تاریخی طور پر روس کا حصہ سمجھتے ہیں، اور انہوں نے یوکرین کی نیت سے متعلق متعدد جھوٹے دعوے کیے جو محسوس ہوتا ہے کہ ممکنہ عسکری کاروائی کے بہانے کے طور پر ترتیب دیے گئے ہیں۔"

"یہ جنگ کی حجت پیش کرنے کے لیے روسی عوام سے خطاب تھا۔"

ایسٹونیا کے صدر آلار کارس نے کیئو، جہاں وہ زیلینسکے کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے گئے، میں کہا، "صدر پیوٹن اپنے تشدد پسندانہ اقدامات کے لیے مستقبل کی نسلوں کو جوبدہ ہوں گے۔"

یوکرین کے سفیر سیرجی کئیسلئیٹسیا مصر تھے کہ روس کے اقدامات کے باوجود ان کے ملک کی سرحدیں "ناقابلِ تبدیلی" رہیں گی۔

چین کی بیقراری

منگل کی صبح بیجنگ، جو قبل ازاں یوکرین میں روس کے عزم کی حمایت کرتا رہا ہے، نے بھی اس مسئلہ پر اضطراب کا اظہار کیا۔

بیجنگ میں ونٹر اولمپکس کی تقریب میں پیوٹن اور چین کے رہنما ژی جن پنگ نے "لا محدود" دوستی کا ایک معاہدہ تشکیل دیا تھا۔

انہوں نے اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا، "تعاون کا کوئی ’ممنوعہ‘ علاقہ نہیں۔"

لیکن ان اولمپک گیمز کے اختتام کے بعد، یہ حدیں سامنے آ گئیں جیسا کہ پیوٹن نے یوکرین میں آگے بڑھے۔

منگل کو امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ ایک ٹیلی فون کال میں چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے – روس کا نام لیے بغیر – طرفین سے اقوامِ متحدہ کے منشور کے اصولوں پر عمل پیرا رہنے کا مطالبہ کیا، جو کہ رکن ریاستوں کی خودمختاری اور سرحدی سالمیت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

وانگ کی ان آراء کے بعد اقوامِ متحدہ میں چین کے نمائندہ ژہانگ جن کی رائے سامنے آئی جو روس کے نظریہ سے مزید بے چینی کا اظہار کرتی ہے۔

انہوں نے کہا، "تمام فریقین کو رکے رہنا چاہیئے اور ایسے تمام اقدامات سے گریز کرنا چاہیئے جن سے تناؤ میں اضافہ ہو۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500