معیشت

ایک برِّ اعظم دور: یوکرین میں روس کی جنگ افریقہ میں خوراک سے متعلق سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے

جولیو کیتھس

اکتوبر میں مارسابت کاؤنٹی، کینیا میں قحط کا شکار چرواہے اس امّید پر پانی کے ایک سوکھے کنویں کے گرد جمع ہیں کہ اپنے مویشیوں اور اپنے استعمال کے لیے کچھ پانی نکال لیں۔ یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجہ میں کینیا میں قحط اور خوراک سے متعلق عدم سلامتی بد تر ہو گئی ہے۔ [جولیو کیتھسؕ/ کاروان سرائے]

اکتوبر میں مارسابت کاؤنٹی، کینیا میں قحط کا شکار چرواہے اس امّید پر پانی کے ایک سوکھے کنویں کے گرد جمع ہیں کہ اپنے مویشیوں اور اپنے استعمال کے لیے کچھ پانی نکال لیں۔ یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجہ میں کینیا میں قحط اور خوراک سے متعلق عدم سلامتی بد تر ہو گئی ہے۔ [جولیو کیتھسؕ/ کاروان سرائے]

نیروبی – کینیا کے شہری یوکرین میں روسی جنگ کے فوری خاتمہ کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ دلیہ کی درآمد بحال ہو سکیں اور افراطِ زر اور قحط کی وجہ سے بد تر ہو جانے والی سخت بھوک کا سامنا کرنے والے کینیا کے دسیوں لاکھوں شہریوں کو خوراک مہیا کرنے میں مدد مل سکے۔

مشرقی، جنوبی، مغربی اور وسطی افریقہ میں زیادہ تر ممالک کی طرح – یہ ملک بھی گندم، مکئی اور سبزیوں کے تیل کی درآمدات کے لیے روس اور یوکرین پر منحصر ہے۔

کینیا کے مقتدرۂ زراعت و خوراک نے فروری کے اواخر میں رپورٹ کیا کہ ملک میں صرف ہونے والی گندم کا 90 فیصد روس اور یوکرین سے درآمد کیا جاتا ہے۔

لیکن شدید جنگ نے، جو اب نویں مہینے میں ہے، اس برِّ اعظم کو تجارت کا بہاؤ ابتر کر دیا ہے۔

ایک تصویر میں سی ایگل نامی ایک کشتی کا ایک منظر دکھایا گیا ہے جو مبینہ طور پر یوکرین سے گندم کی ایک کھیپ لے کر چلی اور 9 ستمبر کو بندرسوڈان میں بحیرۂ احمر کے ساحل پر لنگرانداز ہوئی۔ [اے ایف پی]

ایک تصویر میں سی ایگل نامی ایک کشتی کا ایک منظر دکھایا گیا ہے جو مبینہ طور پر یوکرین سے گندم کی ایک کھیپ لے کر چلی اور 9 ستمبر کو بندرسوڈان میں بحیرۂ احمر کے ساحل پر لنگرانداز ہوئی۔ [اے ایف پی]

مارچ 2022 میں کینول، نیروبی میں واحد پٹرول سٹیشن پر، جہاں ایندھن دستیاب ہے، 'بوڈا بوڈا' کے نام سے معروف بدقماش موٹرسائیکل سوار کمیونیٹی نے بھیڑ لگا رکھی ہے۔ یوکرین پر روسی حملے نے توانائی کی عالمی رسد میں خلل پیدا کیا اور کینیا میں تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کا باعث بنا۔ [جولیو کیتھس/ کاروان سرائے]

مارچ 2022 میں کینول، نیروبی میں واحد پٹرول سٹیشن پر، جہاں ایندھن دستیاب ہے، 'بوڈا بوڈا' کے نام سے معروف بدقماش موٹرسائیکل سوار کمیونیٹی نے بھیڑ لگا رکھی ہے۔ یوکرین پر روسی حملے نے توانائی کی عالمی رسد میں خلل پیدا کیا اور کینیا میں تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کا باعث بنا۔ [جولیو کیتھس/ کاروان سرائے]

اقوامِ متحدہ (یو این) کے عالمی خوراک پروگرام کے مطابق، معاملات کو بدتر بناتے ہوئے موسمِ برسات کے چار مرتبہ ناکام ہونے سے، جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، کینیا، صومالیہ اور ایتھوپیا میں تقریباً 22 ملین باشندے فاقہ کشی کی زد میں ہیں۔

نتیجتاً کینیا میں خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ مکئی سے بنے کھانے کا ایک 2 کلوگرام پیک جو کینیا کے اکثر گھروں میں ایک مرکزی خوراک ہوتی ہے، جنگ سے قبل 130 کینیائی شِلنگ (1.07 ڈالر) کا تھا اور اب بڑھ کر 230 کینیائی شِلنگ (1.90 ڈالر) کا ہو کر تقریباً دو گنا ہو گیا ہے۔

اکثر کینیائیوں کی پہنچ سے دور ہو جانے والا خوراک کا ایک اور جزُ ڈبل روٹی ہے، جس کی قیمت اب 60 کینیائی شِلنگ (0.50 ڈالر) فی 400 گرام ہو گئی ہے۔

ڈبل روٹی کی قیمت میں یہ اضافہ روس کی جانب سے زرعی برآمدات کی معطلی اور روسی فوجی ناکہ بندی کی وجہ سے یوکرین کا گندم اور دیگر دلیے برآمد نہ کر سکنے کی وجہ سے گندم کی شدید قلت سے منسلک کیا جا رہا ہے۔

کریملین نے جمعرات (3 نومبر) کو کہا کہ ابھی روس کو اس امر پر فیصلہ لینا ہے کہ آیا وہ یوکرین کے اناج کے اس سودے میں شریک ہو گا، جس کی دلالی اقوامِ متحدہ اور ترکی کر رہے ہیں اور جو رواں ماہ کے آخر میں زائد العیاد ہو جائے گا۔

اناج کی برآمد کو کھولنے کے معاہدے پر روس اور یوکرین نے جولائی میں دستخط کیے تھے اور اس کی تجدید 19 نومبر کو ہونا تھی۔

گزشتہ ہفتے روس کریمیا میں بحیرۂ اسود میں اپنے بیڑے پر ایک ڈرون حملے کی وجہ سے چار روز کے لیے اس معاہدے سے نکل گیا۔

ماسکو نے بدھ کو یہ کہتے ہوئے اپنی شرکت بحال کر دی کہ اسے ایک بحری راہداری سے افواج ہٹانے کے لیے یوکرین نے سیکیورٹی ضمانت دی ہے۔

لیکن روسی صدر ویلادیمیر پیوٹِن نے دھمکی دی کہ کئیو کے اس ضمانت کی خلاف ورزی کرنے پر وہ دوبارہ اس معاہدے کو ترک کر دیں گے۔

عالمی بریڈباسکٹ

خوراک و زراعت کی تنظیم (ایف اے او) نے جون میں خبر دی کہ یوکرین اور روس گندم اور جو کی عالمی برآمدات کا 25 فیصد، اور مکئی کی برآمدات کا قریباً 15 فیصد فراہم کرتے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ یوکرین دنیا میں سورج مکھی کے بیج کے تیل کا تقریباً 50 فیصد، جبکہ روس دیگر 25 فیصد فراہم کرتا ہے۔

ایف اے او کے مطابق، گندم کی درآمدات کے لیے یوکرین اور روس پر منحصر ممالک میں سے متعدد افریقہ، وسط ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں ہیں۔

اب وہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

نیروبی کی ایک برانڈنگ، مارکیٹنگ اور مواصلاتی فرم ڈوئل پِکس کے ڈائریکٹر سائمن مارابی نے کہا، "ہم ایک برِ اعظم دور ہیں، لیکن ہم اس جنگ کے وحشتناک اثرات محسوس کر رہے ہیں۔"

مارابی نے کہا کہ گندم اور سورج مکھی کے بیج جیسی ناگزیر اشیائے خوردنی نے نظامِ سلسلۂ رسد کو غیر مستحکم بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے تاجروں نے غیر معمولی منافعوں کی توقع میں دلیے ذخیرہ کر لیے ہیں۔

انہیں خدشہ ہے کہ طلب اور رسد کے دھچکوں کے اثرات ایک طویل عرصہ تک محسوس کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا، "جب تک یوکرین میں کاشتکار متاثر ہوتے رہیں گے – یعنی اگر کاشتکاروں نے اپنے کھیت چھوڑ دیے یا ان پر 100 فیصد کام نہیں کر رہے – تب تک آنے والے برداشت کے موسم میں پیداوار متاثر ہوتی رہیں گی۔"

جنگ کے معاشی اثرات کینیا کے معاشرے کی ہر سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔

اپریل میں شائع ہونے والی ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق، یوکرین پر روسی حملے سے قبل کینیا کے ہر 10 میں سے سات شہری خوراک سے متعلق عدم سلامتی کا شکار تھے۔

مسلسل جنگ کی وجہ سے صورتِ حال ممکنہ طور پر بدتر ہو گئی ہے۔

نیروبی کے نواح میں کھلی فضا میں بنے ایک بازار، گیکومبا میں پرانے کپڑے فروخت کرنے والی 48 سالہ روز مکامی نے کہا، "[یہ جنگ] ہر طرف مسائل پیدا کر رہی ہے۔"

چار بچوں کی اس اکیلی ماں نے کہا، "بودوباش کی بلند لاگت کی وجہ سے میں بمشکل ہی اپنے اہلِ خانہ کو کھلا پلا سکتی ہوں۔"

اس نے کہا، "خوراک کی قیمتیں میری آمدنی سے ماورا ہیں،" اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے اہلِ خانہ نے کئی ماہ قبل چاول استعمال کرنا چھوڑ دیے ہیں اور اس کے بجائے وہ گیتھیری (لوبیے اور مکئی کا مرکب) استعمال کرتے ہیں، جو نسبتاً ارزاں ہے۔

بڑھتے ہوئے خدشات

نیروبی کے ایک گنجان آباد علاقہ زمّرمان میں ایک دلیہ فروش، 37 سالہ ڈیوڈ کومے نے کہا کہ جولائی میں اقوامِ متحدہ کی مداخلت سے دستخط ہونے والے ایک معاہدے کے بعد جب روس نے یوکرین کو اپنی بحیرۂ اسود کی بندرگاہوں سے اناج بھیجنے کی اجات دینے پر اتفاق کیا تو اس سے دنیا کو امّید کی ایک کرن نظر آئی۔

لیکن، اس نے کہا کہ، یہ ناکافی ہے۔

کومے نے کہا، "یوکرین پوری دنیا کو کھلاتا ہے، اسی لیے میں باقی ماندہ بندرگاہوں کے مکمل طور پر کھولے جانے کے لیے زور دیتا ہوں۔ میں اقومِ متحدہ اور عالمی حکومتوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ روس پر دباؤ ڈالیں کہ وہ یوکرین کی بندرگاہوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔"

اس نے کہا، "یہاں تک کہ کاشتکاروں کو بھی تحفظ کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے کھیتوں کو نرم کریں۔"

کومے کو خدشہ ہے کہ نومبر کے بعد اس کی دکان میں دلیے، خصوصاً مکئی ختم ہو جائیں گے۔

اس نے کہا، "جیسا کہ کینیا میں مکئی کی سستی درآمد نہیں ہے، مجھے نہیں معلوم کہ نئی رسد کہاں سے حاصل کروں۔"

کومے کو یہ بھی خدشہ ہے کہ بود و باش کی بڑھتی ہوئی لاگت اور افراطِ زر کی وجہ سے یوکرین میں روس کی جنگ کینیا میں سیاسی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔

اس نے کہا، "پہلے ہی کینیائی صدر ویلیم روتو کی نئی حکومت پر اُنگا [مکئی کے آٹے] کی قیمتیں اور ایندھن کی لاگت کم کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈال رہے ہیں۔ حکومت کسی سبسڈی کے بغیر شاید ایسا نہ کر سکے، جو نئی انتظامیہ نے ان دونوں [مصنوعات] سے ہٹا دی ہے۔"

جیسا کہ کینیا زیادہ تر کھاد روس سے درآمد کرتا ہے، اس کی کاشتکاری کی پیداوار بھی کھاد کی بلند لاگت سے متاثر ہو سکتی ہے۔

کسانوں کی جانب سے کھادوں کی بلند قیمتوں پر آہ و بکا کے بعد حکومت کو 71٫000 میٹرک ٹن کھاد پر سبسڈی دینے کے لیے ستمبر میں 3.55 بلین کینیائی شِلنگ (29.2 ملین ڈالر) کی خطیر رقم نکالنا پڑی۔

'روس کی غیر ضروری جنگ' کو ختم کیا جائے

متعدد کاشتکاروں اور تاجروں کی طرح کیامبو کاؤنٹی میں کھاد کی 38 سالہ بیوپاری جین نجوگو نے محتاط طور پر حکومت کی سبسڈی کا خیر مقدم کیا۔

اس نے کہا، "یہ مداخلت ایک اچھی خبر ہے لیکن شاید قلیل مدت کے لیے ہو۔ بہت زیادہ کسان ہیں جنہیں یہ کم رسد کے بدلے درکار ہے۔"

اوکسفام اور دیگر بین الاقوامی انسان دوست تنظیموں نے مارچ میں رپورٹ کیا، "کینیا فصلوں کی پیداوار میں 70 فیصد کمی سے متاثر ہوا ہے اور اس نے اسے ایک قومی تباہی قرار دے دیا ہے جبکہ 3.1 ملین افراد شدید بھوک میں ہیں، اور اب انہیں مدد درکار ہے۔"

"کینیا میں تمام گھرانوں میں سے قریباً نصف کو خوراک ادھار لینی پڑتی ہے یا ادھار پر خریدنا پڑتی ہے۔"

نجوگو نے کہا کہ طویل المیعاد حل جنگ کا خاتمہ ہے تاکہ عالمی منڈی کی حسبِ معمول کاروائیاں بحال ہو سکیں۔

اس نے کہا، "مجھے روس کی اس غیر ضروری جنگ کے نتائج پر افسوس ہے۔ میرا کاروبار اور بودو باش متاثر ہوئے ہیں۔" اس نے مزید کہا کہ اسے امّید ہے کہ زیادہ قیمت کے باوجود اس کے گودام میں موجود کھاد کے لیے گاہک آئیں گے۔

نجوگو کو خدشہ ہے کہ بودوباش کی بلند لاگت 2022 سے آگے بھی جائے گی۔

اس نے کہا، "کھاد کی زیادہ لاگت کا مطلب کم پیداوار ہے، جس سے کینیا مزید خوراک درآمد کرنے پر مجبور ہو گا، اور اس طرح خوراک کی عدم سلامتی کا وہی چکر چلتا رہے گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500