سلامتی

افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے دوبارہ ابھرنے کے بعد امریکہ کی وسطی ایشیا کے ساتھ تعاون پر نظر

از پاکستان فارورڈ

افغانستان کے بلدیاتی کارکن 20 جون کو کابل میں، اس حملے کے چند دن بعد، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی، ایک سکھ مندر کے احاطے کے اندر سے ملبہ صاف کر رہے ہیں۔ [احمد ساحل ارمان/اے ایف پی]

افغانستان کے بلدیاتی کارکن 20 جون کو کابل میں، اس حملے کے چند دن بعد، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی، ایک سکھ مندر کے احاطے کے اندر سے ملبہ صاف کر رہے ہیں۔ [احمد ساحل ارمان/اے ایف پی]

گزشتہ کئی مہینوں کے دوران، القاعدہ اور "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش- کے) کاا فغانستان میں دوبارہ ابھرنا، امریکہ کو خطے میں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے، وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تعاون کو وسعت دینے کی ترغیب دے رہا ہے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ (یو ایس سینٹ کام) کے کمانڈر، آرمی جنرل مائیکل "ایرک" کوریلا نے 23 جون کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ محدود انٹیلی جنس کے باوجود، امریکہ پہلے ہی افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں کو دوبارہ قائم ہوتے دیکھ رہا ہے، انہوں نے کوئی اضافی تفصیلات فراہم نہیں کی۔

کوریلا نے اپنا یہ تبصرہ، جون کے شروع میں وسطی ایشیائی ممالک کے دورے کے دوران کیا تھا جب انہوں نے تاجک، ازبک اور قازق حکام کے ساتھ سیکیورٹی پر تبادلہ خیال کیا۔

امریکی اور تاجک وفود نے 15 جون کو، امریکہ-تاجک تعلقات، خاص طور پر فوجی اور سیکورٹی کے معاملات میں، ممکنہ توسیع پرغور کیا۔

انہوں نے علاقائی اور عالمی حالات، دہشت گردی کے خلاف جنگ، منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر بین الاقوامی جرائم پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

کوریلا نے 14 جون کو ازبکٍستان کے دفاعی حکام سے بھی ملاقات کی۔

تاشقند میں امریکی سفارتخانے کے طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، انہوں نے ملاقات کے بعد کہا کہ "ہماری بات چیت کے دوران، ہم نے اپنے فوجیوں کے لیے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کی جن کے ذریعے وہ 20 سال کے عرصے میں حاصل کیے گئے اپنے جنگی تجربے سے سیکھے گئے سبق کو سانجھا کر سکیں۔"

"اب ہم اس محنت سے حاصل کردہ حکمت کو، اپنے ازبک شراکت داروں کے ساتھ سانجھا کریں گے۔ ہم ازبک تربیت، تکنیک اور طریقہ کار کو سیکھنے کی بھی امید رکھتے ہیں جو ہماری امریکی فوج کے لیے قیمتی ہو سکتے ہیں۔"

کوریلا نے کہا کہ "ایک اور مسئلہ جس پر ہم نے تبادلہ خیال کیا وہ متشدد نظریہ سے لاحق خطرہ ہے، ایک ایسا مسئلہ جس کا کوئی خالصتاً فوجی حل نہیں ہے۔ ہم مشترکہ طور پر ان گروہوں کے بارے میں فکر مند ہیں جو اس قسم کے نظریے کی حمایت کرتے ہیں جو ابھی بھی ایک خطرہ ہے"۔

کوریلا اور قازق وزیر دفاع رسلان زاکسیلیکوف نے 11 جون کو ہونے والی ملاقات میں، وسط ایشیائی خطے میں سیکورٹی کے باہمی خدشات کو تولا اور دفاعی تعاون کو وسعت دینے کے مواقع پر غور کیا۔

جون میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، جس میں ان علاقائی اندیشوں کا حوالہ تھا کہ داعش-کے یا القاعدہ، ایک زیادہ وسیع خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغانستان کی موجودہ بدحالی کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کوریلا نے کہا کہ "ان کے تین اہم خدشات ہیں: افغانستان، افغانستان، افغانستان۔"

واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی ہے کہ "خطے میں مصروف فوجی اور سفارتی حکام کے مطابق، وسطی ایشیائی ممالک امریکہ کو افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات کی تشکیل نو کے بارے میں جو خفیہ اطلاعات فراہم کر سکتے ہیں وہ بہت اہم ہیں۔"

"دہشت اور تشدد"

افغان تجزیہ کاروں نے بھی افغانستان میں داعش -کے اور القاعدہ کے تربیتی اڈوں کے دوبارہ قیام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ترکمانستان سے تعلق رکھنے والے افغان فوجی تجزیہ نگار، جنرل (ریٹائرڈ) سید ثمر سادات نے کہا کہ " بدقسمتی سے، افغانستان اب بھی بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے موزوں جگہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل، اسامہ بن لادن کے بیٹے عبداللہ نے افغانستان کا سفر کیا، جہاں اس نے خفیہ طور پر حکمرانوں سے ملاقات کی اور ملک کے شمالی علاقوں کا دورہ کیا۔"

سادات نے کہا کہ "بین الاقوامی دہشت گرد عناصر، جن میں القاعدہ کے اراکین، چیچنیا [روس میں]، وسطی ایشیا اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے منحرف اور انتہاپسندوں نے بھرتیاں اور افغانستان میں قدم جمانا شروع کر دیے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "القاعدہ کے احیاء کا اصل شکار افغان شہری ہیں۔"

"اس کا احیاء جنگ، تشدد اور انارکی لائے گا اور افغانستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کر دے گا۔"

سادات نے کہا کہ افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی خطے اور دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ تھی، اور اب بھی ہے، جبکہ یہ افغانستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بھی ہے۔

کابل میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ کار مطیع اللہ ابراہیم زئی نے بھی کہا کہ متعدد دہشت گرد تنظیمیں، خاص طور پر القاعدہ، نے گزشتہ سال افغانستان میں دوبارہ قوت پکڑ لی ہے اور وہ سرگرم ہو گئی ہیں۔

ابراہیم زئی نے کہا کہ افغانستان سے اپنی تاریخ اور سابقہ روابط کی وجہ سے، دہشت گرد نیٹ ورک آسانی سے خود کو دوبارہ منظم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے اور اس وقت وہ افغانستان میں بھرتیاں اور اپنی افواج کو مضبوط کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "القاعدہ کا احیاء افغانستان کو ایک بار پھر دہشت گردی اور تشدد میں غرق کر دے گا اور ملک کو بین الاقوامی دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہ اور مرکز میں تبدیل کر دے گا۔"

انہوں نے کہا کہ "یہ دوسری دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھرتیاں کرنا بھی آسان بنائے گا اور افغانستان کی دیوالیہ معیشت کے خاتمے کا باعث بنے گا۔"

ایران میں مقیم ایک افغان سیاسی تجزیہ کار عارف کیانی نے کہا کہ "اب القاعدہ کی افغانستان میں پہلے سے زیادہ مضبوط موجودگی ہے، جو افغانستان اور دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔"

کیانی نے کہا کہ "القاعدہ کے مقاصد، علاقائی اور خطے سے باہر دونوں ہی ہیں، [اور] ان کے علاقائی اور عالمی سلامتی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ "

انہوں نے کہا کہ "اس کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری القاعدہ پر قابو پانے کے لیے کارروائی کرے۔ بصورت دیگر، افغانستان میں موجود ہتھیاروں اور سامان کو دیکھتے ہوئے، القاعدہ علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔"

ایک سیاسی تجزیہ کار، سید مقدم امین جن کا تعلق کابل سے ہے، نے کہا کہ "بلاشبہ القاعدہ، افغانستان اور یہاں تک کہ خطے میں اپنے آپ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔"

"اگر یہ بحال ہو گئی تو افغانستان دہشت گرد اور تخریبی گروہوں کے مرکز میں تبدیل ہو جائے گا۔ جنگ اور عدم استحکام ہمارے ملک کو دوبارہ اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔"

[کابل سے حمزہ نے اس خبر کی تیاری میں حصہ لیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500