سلامتی

شام میں منشیات کی جنگ کو ہوا دینے میں پاکستانی ملیشیا ملوث ہے

نوہد ٹوپالیان

جنوبی دمشق کے علاقے سیدہ زینب کے رہائشی، مئی میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ایران سے منسلک ملیشیا کے زیر کنٹرول علاقوں میں، منشیات کی غیر قانونی تجارت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ [احمد عبید/ صوت العاصمہ]

جنوبی دمشق کے علاقے سیدہ زینب کے رہائشی، مئی میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ایران سے منسلک ملیشیا کے زیر کنٹرول علاقوں میں، منشیات کی غیر قانونی تجارت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ [احمد عبید/ صوت العاصمہ]

بیروت -- اس ماہ جنوبی دمشق کے علاقے سیدہ زینب مزار میں پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) سے وابستہ ملیشیاؤں کے درمیان لڑائی کے تازہ ترین دور میں مہلک جھڑپیں شروع ہو گئیں۔

شامی حزب اختلاف کی تنظیم صوت العاصمہ (وائس آف دی کیپیٹل) نے خبر دی ہے کہ 7 مئی کو جب آئی آر جی سی سے منسلک دو ملیشیاؤں کے ایرانی، افغان اور پاکستانی عناصر، آپس میں لڑ پڑے جس میں متعدد ملیشیا مارے گئے۔

صوت العاصمہ کے علاقائی منتظماتی مدیر احمد عبید نے المشاریق کو بتایا کہ اس مختصر، پرتشدد جھڑپ کے دوران سات غیر شامی ملیشیا مارے گئے، جو تقریباً آدھے گھنٹے تک جاری رہی۔

انہوں نے کہا کہ ایک 7 سالہ لڑکی اپنی جان گنوا بیٹھی اور دیگر 13 عام شہری زخمی ہو گئے۔

جنوبی دمشق کے ایک ایسے علاقے میں واقعہ سیدہ زینب کا مزار، جو ایران سے منسلک ملیشیا کے زیر کنٹرول ہے، مئی میں نظر آ رہا ہے۔ [احمد عبید/ صوت العاصمہ]

جنوبی دمشق کے ایک ایسے علاقے میں واقعہ سیدہ زینب کا مزار، جو ایران سے منسلک ملیشیا کے زیر کنٹرول ہے، مئی میں نظر آ رہا ہے۔ [احمد عبید/ صوت العاصمہ]

آؤٹ لیٹ نے رپورٹ کیا کہ کشیدگی کی بنیاد، جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا، مبینہ طور پر آئی آر جی سی سے منسلک دو گروپوں کے درمیان منشیات کی فروخت کے تنازعہ پر تھی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ایک گروہ نے دوسرے کے "علاقے" پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں منشیات کی فروخت شروع کردی تھی، جو بعد میں تنازع کا باعث بنی۔

صوت العاصمہ نے خبر دی ہے کہ فروری میں، عراقی زائرین کے ایک گروپ اور مقامی باشندوں کے درمیان اسی علاقے میں جھڑپیں ہوئیں تھیں۔

مبصرین نے کہا کہ مبینہ طور پر یہ تنازعہ اس وقت بھڑک اٹھا جب عراقی زائرین نے کچھ رہائشیوں کی اس وقت توہین کی جب علاقے میں خوراک کی امداد تقسیم کی جا رہی تھی۔

دمشق کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سیدہ زینب کے علاقے پر ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کا کنٹرول ہے اور انہوں نے اسے "بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے کی طرح" ایک مضافاتی علاقے میں تبدیل کر دیا ہے، جو لبنانی حزب اللہ کا تاریخی گڑھ رہا ہے۔

دمشق کا لاقانونیت والا علاقہ

شامی کارکنوں نے المشارق کو بتایا کہ حزب اللہ شام میں منشیات کی بھرمار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دمشق کے ارد گرد کے علاقے وہاں جاری غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے، پارٹی کے لبنانی گڑھوں سے مشابہت اختیار کرنے لگے ہیں۔

عبید نے کہا کہ سیدہ زینب کا علاقہ آئی آر جی سی اور شامی حکومت کے زیر کنٹرول ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں، جسے قطعات میں تقسیم کیا گیا ہے، حزب اللہ ملیشیا کے ایرانی، افغان، پاکستانی، عراقی اور لبنانی عناصر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر ایک ملیشیا کو اپنے قطعہ میں پہلے سے مخصوص مقدار میں منشیات فروخت کرنے کا "اختیار" دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیدہ زینب کے علاقے اور آئی آر جی سی کے زیرِ کنٹرول دیگر علاقوں میں منشیات کی تجارت "ملیشیا کے عناصر کے درمیان عروج پر ہے، جو اپنے کمانڈروں کے ساتھ منافع بانٹتے ہیں"۔

عبید نے کہا کہ سیدہ زینب کا علاقہ بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے کی طرح لاقانونیت کا شکار ہو چکا ہے جس میں سنی شامیوں، عراقیوں اور فوا، کفرایا، النبل اور الزہرہ کے شیعہ گروہوں کی آبادی کا ایک گہرا مرکب موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ "یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ملیشیا وہاں اور دمشق اور اس کے دیہی علاقوں میں کھلے عام منشیات کا کاروبار کر رہے ہیں، جہاں وہ اسے کافی اور چائے کے اسٹالوں پر فروخت کر رہے ہیں۔"

انہوں نے جنوبی دمشق میں منشیات کی فروخت میں نمایاں اضافے کی وجہ آئی آر جی سی اور حزب اللہ کو دستیاب مالی امداد کی کمی قرار دیا، کیونکہ دونوں ہی مالی امداد کے لیے ایران پر انحصار کرتے ہیں اور ایران اقتصادی بحران کی زد میں ہے۔

آئی آر جی سی سے منسلک ملیشیاؤں میں جھڑپ

ایک شامی صحافی اور کارکن کے مطابق جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کی ہے، کہا کہ حزب اللہ بڑی مقدار میں منشیات، خاص طور پر چرس اور ایسٹائل فینٹائل، جو کہ عام طور پر "جعلی ہیروئن" کہلاتی ہے، دمشق کے علاقے میں اسمگل کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیدہ زینب کے علاقے میں منشیات فروخت کی جاتی ہیں، جو منشیات کے لیے ایک بدنام زمانہ بازار بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے عناصر اور شامی فوج کے چوتھے ڈویژن کے درمیان منافع کے حصہ کو لے کر، کبھی کبھار جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، کیونکہ چوتھی ڈویژن فروخت میں سہولت فراہم کرنے کے بدلے زیادہ بھاری حصہ کا مطالبہ کرتی ہے۔

دیر الزور کے ایک کارکن جو "خالد" کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے درمیان جھڑپیں، "فرات کے کنارے چوکیوں پر کنٹرول سے متعلق ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں حکومت کی حامی نیشنل ڈیفنس فورسز ملیشیا اور فاطمیون ڈویژن جو کہ افغان جنگجووُں پر مشتمل ہے، کے ارکان کے درمیان مہکان کے قصبے میں، ایک مسلح تصادم کی اطلاع ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپریل کے اوائل میں دیر الزور کے سرحدی قصبے البو کمال میں اس وقت جھڑپیں شروع ہوئیں جب آئی آر جی سی سے منسلک لیوا الشیخ ملیشیا نے لیوا ابو الفضل العباس کی کار کی تلاشی لینے کی کوشش کی۔

خالد نے کہا کہ تنازعہ میں ایک لیوا ابو الفضل العباس کا رکن ہلاک دیگر سات ملیشیا کارکن اور متعدد شہری زخمی ہو گئے تھے اور قریب کے مکانات کو نقصان پہنچا تھا۔

انہوں نے کہا کہ دیہی البو کمال میں "گرین بیلٹ" کا علاقہ آئی آر جی سی کی 147ویں بریگیڈ کے عناصر اور ایران کی حمایت یافتہ عراقی ملیشیاؤں کے درمیان مسلح جھڑپوں کا منظر رہا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500