سیاست

ایران کی افغان ملشیا نے شام کے شماریاتی نقشے کو بدل دیا

ولید ابوالخیر

6 جون کو فاطمیون ڈویژن کے جنگجو آئی آر جی سی کے آفیسر حسین یکتا سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [فاطمیون اکاؤنٹ، ٹیلی گرام]

6 جون کو فاطمیون ڈویژن کے جنگجو آئی آر جی سی کے آفیسر حسین یکتا سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [فاطمیون اکاؤنٹ، ٹیلی گرام]

سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامیٔ ایران (آئی آر جی سی) شام میں جزوی طور پر شماریاتی تبدیلی کے منصوبے کے نفاذ کے لیے فاطمیون ڈویژن کا استعمال کرتے ہوئے مقامی باشندوں کو منتقل کر کے جنگجوؤں اور ان کے اہلِ خانہ کو ان کی جگہ آباد کر رہی ہے۔

فعالیت پسندوں اور ماہرین نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شامی معاشرے کے لیے اس ٱپریشن کے سنجیدہ اور دور رس نتائج ہوں گے۔

آئی آر جی سی اور اس کے الحاق شدگان کے امور پر مہارت رکھنے والے محقق شیار ترکو نے کہا کہ افغان جنگجوؤں پر مشتمل اور شام میں تعینات ملشیا، فاطمیون ڈویژن، ”آئی آر جی سی کی خطرناک ترین عسکری شاخ ہے۔“

ان کا کہنا تھا کہ آئی آر جی سی نے اس ملشیا کے ارکان کو کچھ وقت قبل افغان سرحد کے قریب ایرانی کیمپوں میں تربیت دی۔

31 مئی کو یہاں تدمر کے شامی شہر کے قریب فاطمیون ڈویژن کا ایک آفیسر دیکھا جا سکتا ہے۔ [فاطمیون اکاؤنٹ، ٹیلیگرام]

31 مئی کو یہاں تدمر کے شامی شہر کے قریب فاطمیون ڈویژن کا ایک آفیسر دیکھا جا سکتا ہے۔ [فاطمیون اکاؤنٹ، ٹیلیگرام]

2 جون کو پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں یہاں شام میں فاطمیون ڈویژن کے زیرِ استعمال درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل دیکھے جا سکتے ہیں۔ [فاطمیون ٹیلی گرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو سے سکرین شاٹ]

2 جون کو پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں یہاں شام میں فاطمیون ڈویژن کے زیرِ استعمال درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل دیکھے جا سکتے ہیں۔ [فاطمیون ٹیلی گرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو سے سکرین شاٹ]

شام میں فاطمیون ڈویژن کے جنگجو 6 جون کو شہید سید الحکیم کے ہیڈ کوارٹر میں تدمر کی لڑائی سے متعلق ایک دستاویزی فلم دیکھ رہے ہیں۔ [فاطمیون اکاؤنٹ، ٹیلی گرام]

شام میں فاطمیون ڈویژن کے جنگجو 6 جون کو شہید سید الحکیم کے ہیڈ کوارٹر میں تدمر کی لڑائی سے متعلق ایک دستاویزی فلم دیکھ رہے ہیں۔ [فاطمیون اکاؤنٹ، ٹیلی گرام]

انہوں نے کہا، ”انہوں نے ماہرین سے جنگی تربیت حاصل کی اور ان کے اہلِ خانہ کو افغانستان سے لایا گیا تھا۔“

انہوں نے کہا کہ بعد ازاں انہیں اچھی تنخواہوں اور مالی فوائد کا جھانسا دے کر شام میں لڑائی کے لیے اکسایا گیا اور وعدہ کیا گیا کہ اگر وہ مارے گئے تو ہلاک جنگجوؤں کے اہلِ خانہ کو ایرانی شہریت دی جائے گی۔

2014 سے شام میں حمص، حلب، دیرالزور، المیادین اور البوکمال جیسے علاقوں کے ساتھ ساتھ دمشق کے علاقے اور سیدہ زینب کے مزار کے نواح میں معرکوں میں ان کا کردار نمایاں ہونے لگا۔

دھمکیاں اور مالی بہکاوا

شامی قانون دان بشیر البسّام نے کہا کہ آئی آر جی سی اس امر سے مکمل طور پر آگاہ ہے کہ صوبہ دیرالزور کے باشندے شام میں ایرانی موجودگی کے ذریعے نافذ کی گئی طے شدہ تقدیر کی حمایت نہیں کر رہے بلکہ بمشکل ہی اسے برداشت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”یہ اس امر سے پوری طرح آگاہ ہے کہ مقامی یا علاقائی طور پر ہونے والی کوئی بھی تبدیلی شام میں اس کے توسیع کے منصوبوں کا خاتمہ کر سکتی ہے، لہٰذا اس نے اپنا کنٹرول مضبوط تر کرنے کے لیے ہرممکن وسائل کا استعمال کرنے کا سہارا لیا۔“

انہوں نے کہا اس میں دھمکیاں اور مالی بہکاوے شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئی آر جی سی نے حال ہی میں ”وسیع پیمانے کے ایک شماریاتی تبدیلی کے آپریشن“ کے نفاذ کا آغاز کیا ہے، جس میں مقامی باشندوں کو جبراً باہر نکال کر ان کی جگہ جنگجوؤں کے اہلِ خانہ کو لایا جائے گا۔

اس کوشش کا مشاہدہ صوبہ دیر الزور میں دیرالزور شہر، المیادین اور البوکمال کے ساتھ ساتھ صوبہ ہاما کے گاؤں شیخ ہلال، راہجان اور شاکوزیہ اور مشرقی دیہی حلب کے کچھ حصوں میں کیا گیا۔

البسّام نے کہا کہ ان علاقوں سے نکالے گئے خاندانوں کی جگہ آئی آر جی سی سے منسلک جنگجوؤں کے اہلِ خانہ کو دی گئی ہے، بطورِ خاص ان کو جو لبنانی، عراقی اور افغان جنگجو ہیں، اور خال خال پاکستانی جنگجوؤں کو دی گئی ہے۔

”افغان جنگجوؤں کی ان کے اہلِ خانہ سمیت نوآبادکاری سنجیدہ ترین ہے، تاہم، افغان جنگجوؤں کے برعکس عراقی اور لبنانی اپنے قریب [شام سے] مدد کے ساتھ اپنے ممالک میں واپس لوٹنے کا ہمیشہ سوچتے رہیں گے۔“

انہوں نے اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ان لوگوں کے لیے ”اپنے اہلِ خانہ سمیت شام میں ہونا ایک نہ چھوڑنے والا موقع ہو گا،“ کہا کہ افغانستان سے بھاگنے اور ایرانی کیمپوں میں کئی برس گزارنے کے بعد افغان جنگجوؤں کو جو ملے گا وہ اسے تھامے رکھیں گے۔

انہوں نے اس امر کا بھی حوالہ دیا کہ شماریاتی تبدیلی لانے کی کوشش بھی دمشق اور مرکزی شعیہ مزارات کے قریب کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس عمل کے ”تباہ کن سیکیورٹی اور معاشرتی تنائج ہوں گے، کیوں کہ اس خطے کا اپنا تاریخی اور ثقافتی کردار ہے جس کے مقابل وہ روایات رکھی جا رہی ہیں جو شام کے معاشرے کے لیے بالکل اجنبی ہیں“۔

انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ طور پر سنّی اور شعیہ کے درمیان حالیہ توازن خراب ہو جائے گا، انہوں نے حوالہ دیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ ”ایسے خون آشام نتازع کا پیش خیمہ ثابت ہو جو ان علاقوں کے رہائشیوں کے لیے گزشتہ برسوں کی نسبت زیادہ تباہ کن ہو۔“

کلیدی عہدوں پر فاطمیون ڈویژن

البوکمال کے میڈیا ایکٹیوسٹ ایحام العلی نے کہا، ”اس وقت فاطمیون ڈویژن بھرتی کی کوششوں کو تیز تر کر رہی ہے، اور جو تنخواہیں وہ شامی نوجوانوں کو دیتے ہیں وہ آئی آر جی سی سے منسلک دیگر ملشیا کی تنخواہوں سے زیادہ ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ اس ملشیا کے ارکان مسلسل حرکت میں ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے خود کو چھپا سکیں کہ ان پر زمینی یا فضائی حملہ نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ یہ عسکری اہمیت کے متعدد نئے مقامات پر قابض ہو چکے ہیں جو سرنگوں اور زیرِ زمین سیمنٹ کے مورچوں کے ساتھ قلعہ بند علاقوں پر مشتمل ہیں، جیسا کہ تدمر کے قدیم شہر کے قریب سیلو کی عمارت، جو اپنی مضبوط قلعہ بندی کی وجہ سے معروف ہے۔

یہ مقام انہیں تدمر سے دیرالزور کو ملانے والی شاہراہ کا مکمل کنٹرول دیتا ہے۔

العلی نے مزید کہا کہ یہ ملشیا تدمر میں مسلسل املاک اور گھر بھی ضبط کر رہی ہے، جہاں اصل مکینوں کی تھوڑی سی شرحِ فیصد ہی باقی رہ گئی ہے۔

انہوں نے کہا، ”اطلاعات ہیں کہ چند افغان جنگجوؤں کے اہلِ خانہ کو آباد کرنے کے لیے اس شہر میں لایا گیا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ اپنے جنگجوؤں کے تحفظ اور محفوظ نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے، اس ملشیا نے متعدد علاقوں میں نئی سرنگیں کھودی ہیں اور ”دولتِ اسلامیۂ عراق و شام“ (داعش) کی چھوڑی ہوئی پرانی سرنگوں کو نئے سرے سے آباد کیا ہے۔

نئی سرنگوں میں سے ایک الرقعہ شہر کے جنوب مشرق میں غنیم العلی کے قصبے میں جبل البشری کے قریب اور المیادین کے دیرالزور شہر میں ایک دیگر واقع ہے۔

العلی نے کہا کہ یہ دو مقامات بڑی مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور میزائلوں کے حامل ہیں اور ان کی مدد سے جنگجو مقامات کے درمیان نقل و حرکت کرتے ہیں اور یہ انہیں فضائی حملوں سے آڑ فراہم کرتے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500