سلامتی

ایران کی حمایت یافتہ پراکسیز کی جانب سے خلیج میں حملوں سے علاقائی تضویری اتحادوں کو تقویت

المشرق

سی ای این ٹی سی او ایم کے کمانڈر جنرل کینیتھ ایف۔ میک کینزی نے 8 فروری کو ماناما میں بحرین کے ولی عہد سلمان بن حماد الخلیفہ سے ملاقات کی، جہاں انہوں نے خطے اور سلطنت کی سلامتی کے لیے امریکہ کے عزم کو دہرایا۔ [بحرین دفاعی افواج]

سی ای این ٹی سی او ایم کے کمانڈر جنرل کینیتھ ایف۔ میک کینزی نے 8 فروری کو ماناما میں بحرین کے ولی عہد سلمان بن حماد الخلیفہ سے ملاقات کی، جہاں انہوں نے خطے اور سلطنت کی سلامتی کے لیے امریکہ کے عزم کو دہرایا۔ [بحرین دفاعی افواج]

مشرقِ وسطیٰ میں حوثیوں اور ایران کی پشت پناہی کے حامل دیگر ضمنیوں کی جانب سے حملوں نے خطے بھر میں تضویری اتحاد کو تقویت دی ہے۔

امریکی مرکزی کمان (سی ای این ٹی سی او ایم) کے کمانڈر جنرل کینیتھ ایف۔ میک کینزی نے گزشتہ ہفتے ایک طائرانہ دورہ کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، بحرین اور مصر سمیت خطے میں کلیدی عسکری اتحادیوں سے ملاقات کی۔

متحدہ عرب امارات میں، ایران کی پشت پناہی کے حامل حوثیوں اور ایک دیگر پوشیدہ شناخت کے حامل گروہ کی جانب سے کیے گئے حملوں کے بعد میکینزی نے متحدہ عرب امارات کے دفاع کو مستحکم کرنے کے لیے امریکی کاوشوں کو تیز تر کرنے کا کہا۔

انہوں نے 7 فروری کو ڈبلیو اے ایم کو بتایا، "ہم ایک تباہکار لائے ہیں، ایک گائیڈڈ میزائل تباہکار، یو ایس ایس کول، جس میں بیلاسٹک میزائل سے دفاع کی صلاحیت ہے۔ یہ متحدہ عرب امارات کے فضائی دفاع کاروں کے ساتھ قریبی طور پر کام کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں گشت کرے گا اور ملک کو تحفظ فراہم کرے گا۔"

8 فروری کو آئی ایم ایکس 22 مشترکہ مشقوں کے دوران این اے ٹی او مرکز برائے بحری تحقیق و تجربات کے بحری عملہ اور اردن کی شاہی بحریہ کے ارکان بنا آدمی کے تحت البحر گاڑی سلوکم گلائیڈر خلیج عقبہ میں چھوڑ رہے ہیں۔ [یو ایس سی ای این ٹی سی او ایم]

8 فروری کو آئی ایم ایکس 22 مشترکہ مشقوں کے دوران این اے ٹی او مرکز برائے بحری تحقیق و تجربات کے بحری عملہ اور اردن کی شاہی بحریہ کے ارکان بنا آدمی کے تحت البحر گاڑی سلوکم گلائیڈر خلیج عقبہ میں چھوڑ رہے ہیں۔ [یو ایس سی ای این ٹی سی او ایم]

"اور پھر مزید برآں، لگ بھگ آئندہ ہفتے میں، ہم ایف-22 لڑاکا جیٹس کا ایک سکواڈرن لا رہے ہیں، جو دنیا میں فضائی برتری کے بہترین لڑاکہ طیارے ہیں۔"

"یہ بھی ملک کے دفاع میں مدد کے لیے اپنے متحدہ عرب امارات کے شرکاء کے ساتھ کام کریں گے۔ لہٰذا ہمارے خیال میں یہ بحران کے وقت میں فقط ایک دوست کی دوسرے کو مدد ہے۔"

امریکی فضائیہ نے ایک بیان میں کہا کہ خفیہ ایف-22 ریپٹرز ہفتہ (12 فروری) کو فعال طور پر متحدہ عرب امارات میں الظفرہ ایئر بیس پر پہنچ گئے۔

اے ایف سی ای این ٹی کے کمانڈر لفٹننٹ جنرل گریگ گوئیلوٹ نے کہا، "متنوع مشنز میں ایف-22 کی بے مثال صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ مشترکہ، اتحادی، متحدہ اور شریک افواج کے ساتھ باہمی طور پر کاروائی کرنے کی استعدادِ کار اسے اس نازک وقت میں مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں خدمات سرانجام دینے کے لیے مثالی طور پر موزوں بناتی ہے۔"

"ان ریپٹرز کی موجودگی شریک ملک کے پہلے سے مستحکم دفاع کو تقویت دے گی اور عدم استحکام لانے کی خواہاں قوتوں کو یہ تنبیہ دلائے گی کہ امریکہ اور ہمارے شراکت دار خطے میں امن و استحکام کو ممکن بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔"

یہ ہواباز اور ایف-22 لینگ لی-ایوسٹِس، ورجینیا میں واقع فرسٹ فائیٹر ونگ سے تعینات کیے گئے۔

فرسٹ فائیٹر ونگ کے کمانڈر کرنل ویلیم کریڈین نے کہا، "192 ویں ونگ اور 633 ویں ایئر بیس ونگ کی مؤثر معاونت کے ذریعے ہم مختصر نوٹس پر 27 ویں فائیٹر سکواڈرن کو موقع پر لا سکے۔ ہمارے ریپٹرز تجدید شدہ انتہائی باصلاحیت لڑاکہ تیارے ہیں، جنہیں عمدہ ترین ہواباز چلاتے ہیں، اور یہ جہاں بھی جائیں فیصلہ کن فضائی قوت ساتھ لاتے ہیں۔"

منگل کو بحرین میں میک کینزی نے شاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ اور ولی عہد سلمان بن حماد الخلیفہ سے ملاقات کے دوران سلطنت کی سلامتی کے عزم کو بھی دہرایا۔

بدھ کو عسکری کمانڈر نے مصری وزیرِ دفاع محمد ذکی سے امریکہ اور مصر کے مابین عسکری تعاون کو بڑھانے اور مشترکہ مشقیں کرنے پر بات چیت کی۔

میک کنزی نے سائیبر جنگ سمیت خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "میں مانتا ہوں کہ مصر نئے خطرات کا سامنا کرنے کے لیے آگے بڑھنے میں نہایت دلچسپی رکھتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ مصر متعدد طریق سے "عرب دنیا کا ثقافتی، تاریخی اور جغرافیائی مرکز ہے۔۔۔ اور اس لیے مصر ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔"

نئے معاہدے

درایں اثناء، 3 فروری کو اسرائیل نے بحرین کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ، جو کہ ایک برس سے زائد عرصہ قبل ماناما اور ابو ظہبی کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کے بعد سے کسی بھی خلیجی ملک کے ساتھ اس طرز کا اس کا پہلا معاہدہ ہے۔

اسرائیلی وزیرِ دفاع بینی گانٹز نے بحرین کا اپنا پہلا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس، رسد اور مشترکہ تربیت کی یہ مفاہمتی یادداشت دونوں ملکوں کے تعلقات کو "نئی بلندیوں" تک لے جاتی ہے۔

ان معاہدوں کا مقصد خطے میں مزید استحکام لانا، اور ایران کی عداوت اور اس کے سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کے خطے پر رسوخ کو کم کرنا ہے۔

اور 31 جنوری کو صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ وہ قطر کو ایک "اہم غیر نیٹو اتحادی" قرار دینے جا رہے ہیں، جس سے امریکہ اور اس خلیجی ریاست کے درمیان قریبی عسکری اور تجارتی تعلقات کے لیے دروازے کھلیں گے۔

یہ اعلان اس وقت ہوا جب انہوں نے اس خلیجی ریاست کی تضویری اہمیت کو خط کشیدہ کرتے ہوئے شیخ تمیم بن حماد التہانی کی میزبانی کی۔

بائیڈن نے ایک بند ایجنڈا کے ساتھ اوول آفس میں ملاقات سے قبل کہا، "قطر میں ہماری شراکت داری ہمارے اہم ترین مفادات میں سے متعدد کے لیے مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہم توانائی کی عالمی رسد کے استحکام کو یقینی بناتے ہوئے، افغانستان کے عوام کی معاونت کے لیے مل کر اپنا کام جاری رکھتے ہوئے، اور تجارتی تعاون کو مستحکم بناتے ہوئے خلیج اور وسیع تر مشرقِ وسطیٰ میں سلامتی سے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں۔"

مشترکہ عسکری مشقیں

اس خطے نے مستقل ایرنی خطرے کے مقابل مشترکہ عسکری مشقوں کے ایک تسلسل کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔

خلیج تعاون کاؤنسل (جی سی سی) نے 30 جنوری کو مشرقی سعودی عرب میں ایک مشترکہ جنگی مشق مکمل کی جس کا مقصد رکن ریاستوں کے مابین سلامتی تعاون کو تقویت دینا تھا۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، اومان، کویت اور بحرین نے مشرقی خطے میں دمام میں دو ہفتہ طویل عرب خلیج سیکیورٹی 3 مشق میں شرکت کی۔

اس مشق کے آغاز میں سعودی وزارتِ داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ ان مشقوں کا مقصد جی سی سی ممالک کے مابین سیکیورٹی تعاون کو مستحکم کرنا اور خلیجی خطے کو درپیش تمام خطرات سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کے تعاون اور ان کی تیاری کو بہتر بنانا تھا۔

سعودی وزیرِ داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نائف نے مشقوں کی اختتامی تقریب میں کہا کہ جی سی سی ممالک اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے متحد ہیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں خلیجی پانیوں میں اور ان کے گرد امریکہ کی زیرِ قیادت 60 ممالک اور تنظیموں پر مشتمل بحری مشق کا آغاز ہوا جس میں اسرائیل نے پہلی مرتبہ ان ممالک کے ساتھ شرکت کی جو اسے تسلیم نہیں کرتے۔

امریکی بحریہ نے منگل (8 فروری) کو کہا کہ ہر دوسرے برس ہونے والی اس بین الاقوامی بحری مشق (آئی ایم ایکس 22) میں 60 سے زائد اداروں سے 50 کشتیوں اور 9,000 اہلکار شامل تھے۔

اس نے بحرین، جہاں اس کا پانچویں بیڑے کا صدردفتر ہے، سے کہا کہ 80 ڈرونز کے ساتھ یہ بغیر آدمی کے دنیا کی سب سے بڑی مشق ہے۔

اس مشق میں متعدد ممالک شامل ہیں—ان میں سعودی عرب، پاکستان، اومان اور یمن ہیں – جو قبل ازاں اسرائیل سے کوئی سفارتی تعلقات نہیں رکھتے۔

نومبر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے پہلی مرتبہ اسرائیل کے ساتھ مشترکہ بحری مشقوں کا آغاز کیا۔

بڑھتی ہوئی اموات

متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بحرین اور امریکہ، تمام ایران سے متعلق مشترکہ خدشات رکھتے ہیں، جس پر حملے منظم کرنے اور خطے میں سمگلنگ کی کاروائیوں کے الزامات ہیں۔

جمعرات کو ایک حملے میں، جس کی ذمہ داری حوثیوں نے قبول کی، یمن کی سرحد کے قریب ابہا بین الاقوامی ہوائی اڈے کو ہدف بنانے والے ایک ڈرون کو جب سعودی فوج نے مار گرایا تو اس سے گرنے والے ملبہ کی وجہ سے بارہ افراد زخمی ہو گئے۔

اس ملشیا نے گزشتہ ماہ ڈرونز اور میزائلوں سے تین مرتبہ متحدہ عرب امارات کو نشانہ بنایا، جس سے 17 جنوری کو پہلے حملے میں تین غیر ملکی کارکن جاںبحق ہو گئے۔

قبل ازاں اسی ماہ حوثیوں نے بحیرہٴ احمر سے متحدہ عرب امارات کے پرچم کے حامل ایک بحری جہاز کو یہ کہتے ہوئے ضبط کر لیا کہ اس میں اسلحہ تھا – امارات نے اس دعویٰ کی تردید کی ہے۔

23 جنوری کو امریکی بحریہ نے کہا کہ اس نے 40 ٹن کی مقدار میں ایسی کھاد لے جاتے ہوئے، جو دھماکہ خیز مواد بنانے میں استعمال ہو سکتی ہے، ایک بحری جہاز کو ایران سے ایک ایسے راستے پر جاتے ہوئے روکا جو قبل ازاں حوثیوں کو اسلحہ اسمگل کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

دسمبر میں اس نے ایک ماہی گیر کشتی سے 1,400 اے کے 47 بندوقیں اور گولہ بارود ضبط کیا، جس سے متعلق اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ایران سے یمن کو اسلحلہ اسمگل کر رہی تھی۔

حوثی مارب پر ایک خونخوار حملے میں مصروف ہیں، جو یمنی حکومت کا آخری شمالی گڑھ ہے۔

نومبر میں انہوں نے الحدیدیہ بندرگاہ کے جنوب میں ایک بڑے علاقے کا قبضہ حاصل کر لیا۔

اقوامِ متحدہ اور امریکہ یمن تنازع کے خاتمہ کے لیے امن مزاکرات کی فوری ضروت پر زور دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد کا اندازہ 2021 کے اختتام تک 377,000 تک پہنچ گیا ہے۔

میک کینزی نے بدھ کو اپنے دورہٴ مصر کے دوران احرام آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہ مسئلہ سراسر سیاسی ہے اور حوثیوں کے پاس یمن میں جنگ ختم کرنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ وہ اس پر قبضہ کر لیں۔ میرا ماننا ہے کہ حوثیوں کے علاوہ تمام فریق دراصل اس جنگ کا ایک سیاسی خاتمہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "ایک سیاسی خاتمہ ہی ناگزیر ہونے جا رہا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500