سلامتی

عراق اور یمن میں ایرانی پراکسیز مل کر خلیج کی سیکورٹی کو خطرے میں ڈال رہی ہیں

فارس العمران

اماراتی دارالحکومت میں 24 جنوری کو، ابوظہبی کے سمندر کے کنارے سمندری بگلے اڑ رہے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں متحدہ عرب امارات، یمن اور عراق کی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کا نشانہ رہا ہے۔ [کریم صاحب/اے ایف پی]

اماراتی دارالحکومت میں 24 جنوری کو، ابوظہبی کے سمندر کے کنارے سمندری بگلے اڑ رہے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں متحدہ عرب امارات، یمن اور عراق کی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کا نشانہ رہا ہے۔ [کریم صاحب/اے ایف پی]

تجزیہ کاروں نے کہا کہ یمن اور عراق میں ایران کے پراکسیز کے درمیان مہماتی ہم آہنگی کے آثار، خلیجی ریاستوں اور خطے کی سلامتی کو مزید نقصان پہنچا رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو نشانہ بنانے والی، تشدد کی ایک تازہ لہر جنوری میں ڈرون اور میزائل سے کیے جانے والے حملوں کی بوچھاڑ کے ساتھ شروع ہوئی جن کا آغاز یمن سے ہوا تھا اور جن کی ذمہ داری حوثیوں نے قبول کی تھی۔

اب ایک نیا گروہ میدان میں آ گیا ہے۔

اماراتی فورسز نے 2 فروری کو، متحدہ عرب امارات کو نشانہ بنانے والے "دشمن ڈرونز" کو پکڑ کر تباہ کر دیا۔ ایران سے منسلک ایک مشکوک عراقی ملیشیا جو خود کو الویت الوداع الحق کہتی ہے، نے ایران کے پراکسیز کی طرف سے پھیلائے جانے والے ایک بیان میں، اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

ایران کی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا، کتائب حزب اللہ نے حوثیوں کے لیے رقوم اکٹھی کرنے کے لیے عراق میں مزارات پر ڈبے لگا دیے ہیں۔ مہم کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ [سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی تصویر]

ایران کی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا، کتائب حزب اللہ نے حوثیوں کے لیے رقوم اکٹھی کرنے کے لیے عراق میں مزارات پر ڈبے لگا دیے ہیں۔ مہم کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ [سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی تصویر]

حوثی فوج کے ترجمان یحیی ساری نے بعد ازاں الویت الوداع الحق کو مہم پر "مبارکباد" دی اور ایک سینیئر حوثی اہلکار محمد علی الحوثی نے پوسٹ کو حذف کرنے سے پہلے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں حملہ آوروں کی تعریف کی۔

ان کے پیغام میں کہا گیا کہ "شکریہ، عراق اور اس کے مجاہدین کو آزاد کرو"۔

مختلف عوامی بیانات میں، ایران سے منسلک عراقی ملیشیا، عصائب اہل الحق کے رہنما، قیس الخزالی نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ان حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔

الویات الود الحق نے جنوری 2021 میں سعودی عرب پر کیے جانے والےحملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں ریاض کے ال یمامہ محل اور دیگر مقامات پر ڈرون حملے کیے گئے تھے۔

اس نے متحدہ عرب امارات کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی تھی اور ایسی جعلی تصاویر پوسٹ کی تھیں جن میں عظیم الشان برج خلیفہ کی فلک بوس عمارت کو ڈرون سےنشانہ بنایا گیا تھا۔

غیر معروف ملیشیا کو، کتائب حزب اللہ کے اگلے محاذ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

2 فروری کے حملے کے بعد ایک بیان میں، متحدہ عرب امارات کی وزارت دفاع نے کہا کہ وہ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور "ریاست کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات" کر رہی ہے۔

امریکہ نے بھی اپنے خلیجی اتحادی کے دفاع میں مدد کے لئے متحدہ عرب امارات کے لیے "کارروائیوں کے ایک سلسلے" کے حصہ کے طور پر ایک گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر اور جدید ترین لڑاکا طیاروں کو تعینات کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

مربوط حملے

عسکری تجزیہ کار جلیل خلف المحمدوی نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ ایران کی پراکسیز، پاسدارانِ انقلابِ اسلامی قدس فورس (آئی آر جی سی-کیو) کے براہ راست حکم پر علاقائی اور خلیجی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنی کارروائیوں میں ہم آہنگی لا رہے ہیں۔

انہوں نے المشارق کو بتایا کہ "متحدہ عرب امارات اور اس سے پہلے سعودی عرب کے خلاف حملے، واضح طور پر اس کا ثبوت دیتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ایران کی پراکسیز کو "خطے میں اپنی دہشت گردانہ اور تخریبی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے ایرانیوں سے حمایت، سرمایہ اور ہتھیار ملتے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاقانون عراقی ملیشیاؤں کو، عراق کے مفادات یا غیر ممالک پر ان حملوں سے ملک کی ساکھ کو پہنچنے والے شدید نقصان اور اس کے علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات کی کوئی فکر نہیں ہے۔

متحدہ عرب امارات پر تازہ ترین حملے کی ذمہ داری الویت الوداع الحق کی جانب سے قبول کیے جانے کے بعد عراق میں عوامی احتجاج ہوا۔

شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے ان حملوں کی مذمت کی اور واضح کیا کہ وہ عراق کو "خطرناک علاقائی جنگ" میں جھونکنے کی کوششوں کو مسترد کرتے ہیں۔

ایک بیان میں، انہوں نے عراق کو، پڑوسی ممالک اور خطے پر حملوں کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال ہونے کی اجازت نہ دینے کی اہمیت پر زور دیا اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان لوگوں سے سختی سے نمٹے جو عراق کو اس طرح کے تنازعات میں جھونکنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے ملیشیاؤں کی ایران کے ساتھ وفاداری کے حوالے سے کہا کہ "عراق کو امن اور وقار کی ضرورت ہے، نہ کہ باہر سے آنے والے احکامات کے تابع ہونے کی۔"

ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں اماراتی صدر کے سفارتی امور کے مشیر انور گرقاش نے الصدر کے موقف کو "عقلی" اور "ریاستوں کی خودمختاری اور آزادی کے تقدس کے اصول کے مطابق" قرار دیا۔

سیاسی تجزیہ کار احمد شوقی نے کہا کہ ایران سے منسلک عراقی ملیشیاؤں کے لیے جذبہ انہیں حالیہ پارلیمانی انتخابات کے بعد سیاسی فوائد حاصل کرنے میں اپنی ناکامی سے مل رہا ہے۔

انہوں نے المشارق کو بتایا کہ حالیہ حملے "ملیشیاؤں کی طرف سے کی جانے والی اور ایرانیوں کی طرف سے منصوبہ کردہ، بڑھاوا دینے اور حکمتِ عملی کو بدلنے کی پالیسی کا حصہ ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ اپنی کارروائیوں کے ذریعے ملیشیاء "عراق پر مزید بحرانوں اور مسائل کا بوجھ ڈال رہے ہیں اور ایک تباہ کن علاقائی تنازعہ کو ہوا دے رہے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ عراقی "ان ملیشیاؤں کے رویے اور ان کے ملک کی خودمختاری اور مفادات کے ساتھ مسلسل چھیڑ چھاڑ کی مذمت" کرنے کی اپنی خواہش میں بڑے پیمانے پر متحد ہیں۔

حوثیوں کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنا

23 جنوری کو کتائب حزب اللہ نے، حوثیوں کی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو نشانہ بنانے کے لیے، ڈرون بنانے میں مدد کے لیے، چندہ اکٹھا کرنے کی مہم شروع کی۔

"عراق کے نوجوانوں کی مہم" کے طور پر مشتہر کی گئی، اس کوشش کی قیادت کتائب حزب اللہ کے زیر کنٹرول شرعی یوتھ اجتماع کے امیر الموسوی کر رہے ہیں۔

لیکن عراقیوں نے مہم کو فروغ دینے کی کوششوں اور ملیشیا کے زیر ملکیت سیٹلائٹ چینلز جیسے التیجہ، الاحد اور النجابہ اور سوشل میڈیا سائٹس جیسے صابرین نیوز سے چندہ طلب کرنے کے باوجود اپنا حصہ نہیں ڈالا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ناکامی ایران کے پراکسیز کے اقدامات اور تنازعات کو ہوا دینے کے لیے ملک کی دولت کی کمی کے خلاف، بڑھتے ہوئے عوامی عدم اطمینان کی عکاسی کرتی ہے۔

کتائب حزب اللہ کے رہنما ابو علی العسکری نے 28 جنوری کو اعلان کیا کہ ملیشیا نے مہم کے لیے 1 بلین عراقی درہم ( 685,000 ڈالر) بطور "تحفہ" دیے ہیں۔

ٹویٹر پر "تحفہ" پر تبصرہ کرتے ہوئے، صحافی شاہو القرادغی نے نوٹ کیا کہ لبنانی حزب اللہ، یمن میں حوثی اور شامی حکومت کو عراقی پیسوں سے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے، جب کہ عراقی اپنے ملک کے وسائل اور دولت سے محروم ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500